• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاشبہ پاکستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے سرحدوں کی صورت حال پہلے ہی تشویشناک ہے۔ خزانے کے بغیر لشکر اور اتحاد کے بغیر فتح ممکن نہیں، ناقابل تسخیر دفاع کیلئے جہاں مسلح افواج کو چوکس رہنا چاہئے وہیں پر حالات جنگ میں ہونے کے اخراجات کے لئے خزانے کا بھرا ہونا بھی لازمی ہے اسی طرح سے مالیاتی بحران سمیت کسی بھی بحران پر قابو پانے کے لئے قومی اتحاد کا موجود ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ انتشار اور عدم اعتماد کے ماحول میں کوئی کامیابی ملنا ممکن نہیں… تاہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ایک عام پاکستانی سے لے کر قومی قیادت اور حکمرانوں تک سب ہی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ مالیاتی بحران سے نکلنے کیلئے ہمیں کشکول اٹھانے کے بجائے خود احتسابی اور خود انحصاری کی پالیسی اپنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس حوالے سے ہم چند تجاویز عرض کرنا چاہیں گے مگر اس سے پہلے اپنی پھٹی ہوئی جیب اور پھیلائی ہوئی جھولی کی وجوہات پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہوا، کیا کسی غیر نے ہماری جیب کاٹ ڈالی یا خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہی جیب کو اڑالیا، جھولی پھیلانے پر کس نے مجبور کیا۔سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہماری بیورو کریسی ہر سال کم ازکم 40 /ارب روپے خورد برد کر جاتی ہے، محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے تو اس وقت کے بینک نادہندگان کے اربوں روپے معاف کئے جانے کا اعلان ہوا جس پر قومی اسمبلی میں شور مچا اور اس وقت کے وزیر خزانہ یٰسین وٹو نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم ان لوگوں کے نام قومی اسمبلی کو نہیں بتا سکتے کہ جن کے قرض معاف کئے گئے ہیں۔
1992ء تک اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ بیرون ملک اکاؤنٹ میں انتہائی محدود رقم سے زیادہ رقم لے جائی جائے ، اسٹیٹ بینک کو اختیار تھا کہ وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی کرے لیکن معاشی اصطلاحات کے تحفظ ایکٹ 1992ء کے تحت ملک میں مقیم ہر شخص کو یہ اجازت دے دی گئی کہ وہ زرمبادلہ کی شکل میں رقوم ملک کے اندر اور باہر آزادانہ طور پر لا اور لے جاسکتے ہیں جس کے بعد ڈالر کی صورت میں پاکستانی سرمایہ بیرون ملک اکاؤنٹس میں منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ پاکستان کی سول اور ملٹری بیورو کریسی کی کرپشن سمیت منتخب عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کی خوردبرد کی رپورٹیں اب کوئی راز نہیں رہیں بلکہ آئے دن کرپشن کی چونکا دینے والی رپورٹیں ذرائع ابلاغ میں آتی رہتی ہیں اس وقت ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی چند شخصیات کا تقریباً 30/ارب ڈالر باہر کے بینکوں میں موجود ہے جن میں صدر زرداری ، سابق وزرائے اعظم نوازشریف، چوہدری شجاعت ان کے خاندان کے بعض افراد کچھ ریٹائرڈ جنرل، بینکار اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔ سینیٹ کے اندر یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ باہر سے امداد مانگنے سے پہلے ان پاکستانی رہنماؤں کو پاکستان کی مدد کرنی چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر گھٹنوں کے بل بٹھانے والے وہی لوگ ہیں جن کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ملک کے وسیع تر مفاد میں تشکیل پانے کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہیں بالخصوص مشرف اقتدار کے 9برس پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔ شوکت عزیز کی وزارت خزانہ اور وزارت عظمیٰ بھی پاکستان کے موجودہ سنگین مالیاتی بحران کا سبب بنیں۔ مغربی ایجنڈے پر عمل کیا کہ جس میں پاکستان کے سرمائے کو کم کرنا اور ترقی کو روکنا شامل تھا۔ مشرف محض اپنی وردی کی حفاظت اور اقتدار کو طول دینے کیلئے مغرب کے لئے مالیاتی دباؤ کو قبول کرتا رہا۔مشرف دور حکومت کا سب سے بڑا سانحہ یہ تھا کہ معاشی و اقتصادی ترقی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے جھوٹے اعداد و شمار پیش کئے جاتے رہے۔ اس گمراہ کن پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل کے ایوان صدر میں ہوتے ہوئے معاشی ترقی کے تمام طوطے اڑ گئے اور یہاں تک کہ آٹے سے لے کر تیل تک کوئی بھی چیز مناسب قیمت اور ضروری ذخائر کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود اور بعض رفقاء کو ضرور فائدہ پہنچا مگر قوم کو زبردست نقصان ہوا۔ مختلف ذرائع اور رپورٹوں کے مطابق امریکہ نے جنرل مشرف حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امداد دی وہ تقریباً 10/ارب ڈالر بنتی ہے جبکہ پاکستان نے گزشتہ 7 برسوں میں اپنے وسائل سے 15/ارب ڈالر خرچ کر ڈالے۔ یہ کیسی جنگ کہ جسے نہ ہم جیت سکے اور نہ ہی خوشحال ہوئے۔ ہم ہار بھی رہے ہیں اور بھوک سے مر بھی رہے ہیں امریکی امداد سے پاکستان مضبوط کیوں نہیں ہوا جبکہ امریکہ میں اس امداد کے آڈٹ کے مطالبے ہورہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے بھی بعض ذمہ دار سیاستدان امریکی امداد کا شفاف آڈٹ چاہتے ہیں مگر کہیں سے بھی کوئی باز پرس ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہر ایک نے اپنی قیمت وصول کرلی ہے۔ کسی نے این آر او کے ذریعے اپنے اربوں روپے کے اثاثے بچالئے۔ زرداری اور میاں نوازشریف جو آج اسمبلی میں سب سے زیادہ مینڈیٹ رکھتے ہیں انہی کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستان کا پیسہ لوٹنے والوں کو نہ صرف انصاف کے کٹہرے میں لائیں بلکہ اپنے اربوں روپے بھی پاکستانی بینکوں میں لوٹا لائیں، مگر ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ترتیب اپنے والی معاشی پالیسی میں قرضے اور بینک امیروں کیلئے ہوتے ہیں۔ دولت کو تقسیم نہیں بلکہ چند ہاتھوں میں محدود کیا جاتا ہے ہمارے بینک 30 ہزار کے مقروض کو تو گرفتار کرتے اور تھانے میں جوتے لگواتے ہیں لیکن کروڑوں اور اربوں کے نادہندگان کو انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ معاف کر دیا جاتا ہے۔برسوں سے ہمارے مغرب زدہ ماہرین معاشیات اور ہوس زدہ حکمران جس طرح کی پالیسیاں اپنائے ہوئے تھے اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو اب سامنے آرہا ہے تاہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اگر ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چند ضروری اور بنیادی کام کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے ان شخصیات کو کہ جن کے بیرون ملک اربوں ڈالر غیر ملکی اکاؤنٹس میں موجود ہیں انہیں یہ رقم پاکستان لانا ہوگی۔ دوم جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر جنرل مشرف کے دور حکومت تک بینکوں نے جن جن نادہندگان کے قرضے معاف کئے ان تمام لوگوں کے کیسز کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے رقوم وصول کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔ سوم بش انتظامیہ کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے پاکستان کو ملنے والی امداد کا بھی شفاف آڈٹ اور مکمل رپورٹ عوام کے سامنے آنی چاہئے۔ جنرل مشرف اس امداد کو وصول کرنے اور خرچ کرنے والی بااختیار شخصیت تھے جبکہ اس امداد کے خورد برد ہونے کا الزام صدر زرداری لگارہے ہیں لہٰذا ان کی حکومت ہی مشرف حکومت کو ملنے والی امداد کا شفاف آڈٹ کروا سکتی ہے۔قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھتے ہوئے خرچ کرنے کے جذبہ کو جب تک بیدار نہیں کیا جاتا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے لئے نئی قانون سازی نہیں کی جاتی اس وقت تک بھی یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی بیرونی امداد پاکستان کو ہمیشہ کیلئے خوشحال اور خودکفیل بنادے بلکہ یہ تو طے ہے کہ جب تک ہمارے ہاتھوں میں کشکول رہے گا کشکول اٹھانے والے کبھی بھی آزاد خارجہ پالیسی اور داخلی خود مختاری پرمشتمل فیصلے نہیں کر سکتے ۔ معاشی محتاجی ہی درحقیقت سیاسی غلامی کا پہلا زینہ ہوا کرتا ہے۔ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کے بعد ہمیں حق اور سچ پر مبنی اسلامی اقتصادی نظام کی طرف لوٹنا چاہئے۔ جب تک وقت کے حکمران اپنے چراغ کو یہ کہہ کر پھونک نہیں ماریں گے اس میں قوم کا تیل جل رہا ہے اور جب تک خزانے میں ضیافت اور اقتدار کے حصول میں دھوکا اور جبر ہوتا رہے گا ، تب تک رہے گا۔
تازہ ترین