• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پھر وہاں باب اثر جانیے کب بند ہوا
پھر یہاں مناجات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اک روز قیامت گزری
ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی
(فیض)
گزشتہ ہفتے کے کالم میں کچھ کتابت یا پروف ریڈنگ کی غلطیاں تھیں۔ ہمارے ایک قاری جناب عارف وقار صاحب جو بی بی سی سے منسلک ہیں، انہوں نے ان کی نشان دہی کی اور خصوصی طور پر وہ شعر: ’’تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب‘‘ کو، میں نے غلطی سے علامہ اقبال سے منسوب کر دیا تھا۔ موصوف نے بتایا کہ یہ مشہور زمانہ شعر پسرور کے رہنے والے شاعر صادق حسین شاہ صاحب کا ہے۔ قارئین تصحیح کر لیں۔ میں عارف صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کالم کو دلچسپی سے پڑھا اور غلطیوں کی نشان دہی کی۔ آج کالم کیلئے بہت زیادہ مواد جمع ہو گیا ہے، خاص طور پر رینجرز اور صوبائی حکمران پارٹی کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی نے سیاسی ماحول بہت چٹ پٹا کر دیا ہے۔ کافی دنوں سے خاموشی تھی، سوائے وزیراعظم نواز شریف کے بیرونی دوروں اور تصاویر کے ہی کوئی دوسری خبر میڈیا پر نہیں تھی۔ وزیراعظم نواز شریف کو مودی کے ساتھ سرگوشیاں اور پھر چہ میگوئیاں کرتے ہوئے دیکھ کر کرکٹ بورڈ کے احباب خوش ہو گئے اور انہیں امید ہو گئی کہ ان کا کام بن جائے گا مگر ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ مودی کے تیور بھی دوسرے منجھے ہوئے سیاست دانوں سے کم نہیں۔ منہ پہ رام رام بغل میں چھری۔ سیاست دانوں کی مسکراہٹیں اور جھپیاں صرف کیمرے کیلئے ہوتی ہیں، اندر کہانی اور ہوتی ہے۔ بقول فراز:
اب تک دل خوش فہم کو ہیں تجھ سے امیدیں
آ آخری شمعیں بھی بجھانے کیلئے آ
آخری شمع بجھانے کیلئے ہندوستانی وزیر خارجہ تشریف لائی تھیں۔ اب ہماری سیاسی سمجھ بوجھ تو صرف اخباری خبروں کی حد تک ہے مگر بیک ڈور ڈپلومیسی، مودی کے کانوں میں سرگوشیاں اور پھر خوش گپیاں اور ہندوستانی وزیر خارجہ کی آمد اور ان کی شایان شان میزبانی، یہ سب وہ پیغام ہیں جو واجپائی کی لاہور آمد پر ملے تھے اور پھر واجپائی نے میاں نواز شریف صاحب کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی۔ میاں صاحب نے دو، تین مرتبہ پروگرام بنانے کی کوششیں کیں مگر نہ جا سکے اور آخرکارگل کا واقعہ ہو گیا اور سارا پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ پھر 12؍اکتوبر 1999ء کو میاں صاحب کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور میاں صاحب کو کئی روز تک ایسے کمرے میں رکھا گیا جہاں روشنی کی ایک کرن بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج سندھ حکومت فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے کو مصنوعی طور پر طول دے رہی ہے جبکہ سندھ حکومت بخوبی سمجھتی ہے کہ وہ ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور اختیارات میں توسیع دینی پڑے گی۔ مسئلہ یہاں اٹکا ہوا ہے کہ سندھ حکومت احکامات دبئی سے لیتی ہے۔ دبئی والے آزاد ماحول میں بیٹھ کر زندگی کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں اور اپنی حق حلال کی محنت سے کمائی ہوئی دولت انجوائے کر رہے ہوتے ہیں، ایسے میں یہاں سے احکامات جاری کرنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں مگر وہ درخواست قبول ہونے میں فطری دیر ہو جاتی ہے۔ یہاں لوگ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور مختلف چینلز پر بعض اینکر حضرات کی موج ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی مرضی کی کہانیاں گھڑ کر عوام میں سراسیمگی پھیلاتے ہیں اور اس طرح خبروں کو نمک، مرچ لگا کر عارضی طور پر چٹ پٹا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آخر میں وہی ہوتا ہے جو ہونا ہوتا ہے۔ آج ڈاکٹر عاصم کو پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ ہائیکورٹ میں جناب جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو اور جسٹس مالک کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ کمرئہ عدالت کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور محاورتاً تل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ وکیل سرکار نے ڈاکٹر عاصم کی بے حد حمایت کی مگر بے سود۔ نیب والے پوری تیاری سے آئے ہوئے تھے۔ جج صاحب نے تفتیشی افسر کی کافی سرزنش کی کہ وہ اب تک چالان پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ نیب کے وکیل نے درخواست کی کہ کسٹڈی دی جائے جو کہ منظور ہو گئی اور ڈاکٹر صاحب نیب کی کسٹڈی میں دس روز کیلئے چلے گئے۔ ساری رات میڈیا والوں نے سردی میں تھانے کے باہر گزاری کیونکہ افواہ تھی کہ ڈاکٹر عاصم کو پولیس والے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497(2)کے تحت چھوڑ رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہوا اور ساری افواہیں خود ہی دم توڑ گئیں۔ موصوف اب نیب کی کسٹڈی میں ہیں جو شاید پانچ ریفرنسز داخل کرنے کی تیاری کر چکی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ سندھ میں گورنر راج کی افواہیں بھی رات سے گردش کر رہی ہیں مگر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ رینجرز اور سندھ حکومت میں اختیارات کی رسہ کشی کسی بری خبر کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ادھر سندھ اسمبلی بھی اپنا کام دکھا رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے اصل نقصان غریب آدمی کا ہو رہا ہے۔ حکومت بھول گئی ہے کہ ہمارے عوام غربت کی چکّی میں پس رہے ہیں۔ اقربا پروری، کرپشن اور بیروزگاری نے انسان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ عام آدمی نان و شبینہ سے بھی محتاج ہے اور حکمرانوں کو بدہضمیاں ہو رہی ہیں۔ سندھ حکومت کے تمام کرتا دھرتا دبئی میں بیٹھے ہیں اور ہر حکم وہاں سے آتا ہے۔ پاکستان سے کمائی ہوئی دولت دبئی میں بیدردی سے اڑائی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں لوگ بے چینی سےمدد کیلئے دیکھتے ہیں مگر جواب ندارد۔ دیکھیے کب اور کیسے تبدیلی آتی ہے۔ تبدیلی ناگزیر ہے۔ اگر نہ آئی تو خدا نخواستہ ملکی سالمیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بلوچستان میں سردار ثناء اللہ زہری کو وزیراعلیٰ بنانا خوش آئند بات ہے۔ اس سے مسلم لیگ ن کی نمائندگی دو صوبوں میں ہو جائے گی اور وہ صوبائی جماعت نہیں رہے گی بلکہ قومی جماعت بن جائے گی۔ اس وقت پورے پاکستان میں کوئی بھی قومی جماعت نہیں ہے۔ یہ خطرناک بات ہے۔ آخر میں قارئین کی خدمت میں احمد فراز کے حسب حال اشعار پیش کرتا ہوں:
رہرو بھی خود، رفیق بھی خود، راہزن بھی خود
اک میر قافلہ سب ہی القاب لے گیا
کیا پیر میکدہ ہے کہ مسند کی حرص میں
میخانہ وفا کے سب آداب لے گیا
تازہ ترین