• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو جانا چاہئے یا نہیں گزشتہ کئی روز سے یہ امور موضوع بحث رہا لیکن ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھارت کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے اور پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان نے نمائندگی سے دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچایا کہ پاکستان ہر سطح پر دہشت گردی کے خلاف اور امن کی حمایت میں ہونے والے ہر اقدام کی ناصرف حمایت کرتا ہے بلکہ بھرپور کردار ادا بھی کرتا ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا موضوع افغانستان میں امن کا قیام تھا اس کانفرنس میں بھارت نے بھرپور کوشش کی کہ وہ پاکستان کو اس کانفرنس کے اندر ہی تنہا کر دے لیکن اس کی یہ کوشش ناکام بنانے میں نہ صرف چائنا بلکہ روس نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں پاکستان اور ایران کے کردار کی بھرپور تعریف کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان اور ایران نے جس طرح افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس کانفرنس سے ایک مرتبہ پھر واضح ہو گیا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی اس وقت مکمل طور پر بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیںاس کا ثبوت انہوں نے پاکستان کی 50 کروڑ ڈالر کی امداد ٹھکرا کر کیا۔ افغانستان سمجھتا ہے کہ بھارت اور امریکہ مل کر اشرف غنی کی حکومت کو مضبوط کریںگے جبکہ پاکستان ان کوششوں میں ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں ایک چیز واضح طورپر نظر آ رہی ہے کہ خطے کے ممالک اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کررہے ہیں۔ اسی ماہ روس میں افغانستان کے امن کے حوالے سے ایک میٹنگ ہونے جا رہی ہے جس میں پاکستان، چائنا اور روس سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اس کا تعین کریں گے کہ افغانستان میں امن کیسے ممکن ہو اور اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔ افغانستان کے شمالی اتحاد جس کی نمائندگی افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کرتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روس کے زیراثر ہیں جبکہ پشتون کی اکثریت پاکستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ آباد ہے اور ان کے پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی روابط ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چین اور پاکستان ان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ افغانستان میں امن چین، پاکستان اور روس کے مفاد میں ہے چونکہ روس افغانستان کے راستے پاکستان کے گرم پانیوں کے ذریعے دنیا میں اپنی تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے جبکہ چائناافغانستان کے راستے روسی ریاستوں اور یورپ میں تجارت کرنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے روس اور چائناپاکستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر نئی شاہرائوں کا قیام، ریلوے کی لائننگ سمیت بنیادی انفراسٹرکچر کے منصوبے بنا رہا ہے جبکہ پاکستان افغانستان کے راستے سینٹرل ایشین اسٹیٹ یا وسطی ایشیائی ریاستوں سے بجلی اور گیس کے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ چند ماہ کے دوران وسطی ایشیائی ریاستوں کے متعدد دورے کر چکے ہیں جس میں گیس اور بجلی پاکستان براستہ افغانستان پہنچانے کے کئی منصوبوں پر دستخط ہو چکے ہیں ۔ روس نے پاکستان کو باقاعدہ طور پر تحریری درخواست دے دی ہے کہ وہ گوادر بندر گاہ کو اپنی تجارت کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے اس تمام صورتحال کے پیش نظر پاکستان ، چائنا اور روس کا یہ مشترکہ مفاد ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکے جبکہ پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے کی جانے والی کوششوں میں بھارت براہ راست ملوث نہ ہو اور پاکستان کے اس مؤقف کی چائناحمایت کرتا ہے جبکہ روس بھی پاکستان کے اس مؤقف میں وزن سمجھتا ہے جبکہ بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طریقے سے افغانستان میں پاکستان کا اثرورسوخ اور مؤقف کمزور کیا جائے اور افغانستان میں ایسے ہی حالات رکھے جائیں جس سے افغانستان میں پائیدار اور دیر پا امن قائم نہ ہوسکے۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان، چائنا اور روس دسمبر میں ہونے والی میٹنگ میں افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں طالبان سمیت تمام متحرک گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے آپشن پر ناصرف سنجیدگی سے غور کرے گا بلکہ اس حوالے سےاہم فیصلے اور اقدامات اٹھائے جانے کا بھی امکان ہے۔
روس، پاکستان اور چائنا نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان میں دیر پا امن کے لئے بھرپور اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور یہی خطے کے مفاد میں ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ روس اور چائناپاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کے حوالے سے مشترکہ طور پر کوششیں بھی کریں گے ۔ بھارت سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ چین پاکستان کے اس مؤقف کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ ملکر اس حوالے سے اقدامات بھی اٹھا رہا ہے جبکہ روس جو کہ اس عظیم منصوبے میں شامل ہونا چاہتاہے وہ بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ اس منصوبے کو کوئی نقصان پہنچائے لہٰذا تینوں ملکوں کا اس بات پر مؤقف یکساں ہے کہ افغانستان کے اندر بیٹھ کر جو بھی پاکستان اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اس کی نہ صرف مذمت کی جائے بلکہ اس کو روکنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ افغانستان کا مؤقف ہے کہ طالبان کے کچھ گروپ پاکستان کے اندر سے افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کا بل حکومت کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ان کو اپنے ملک سے نکال دے تو یہ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک مزاحمت یا لڑائی کے قابل نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد پاکستان کی پالیسی میں یکساں تبدیلی کی گئی اور اچھے برے طالبان میں تمیز ختم کر دی گئی اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کوئی گروپ یا دہشت گرد نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کر کے ہمسایہ ملک کسی قسم کی کارروائی کی اہلیت نہ رکھ سکے ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب سی بھرپور فوجی کارروائی کی گئی جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔ ضرب عضب کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اندر 80فیصد سے زائد دہشت گردی کے واقعات میں کمی آچکی ہے اور ہمسایہ ملک کے ایسے الزامات میں کوئی صداقت نہیں رہی کہ پاکستان کے اندر سے ریاستی سرپرستی میں گروپس ہمسایہ ممالک میں جا کر کارروائیاں کر تے ہیں۔ افغانستان کی پیچیدہ صورتحال کے حوالے سے امریکہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرناچاہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان، چائنا اور روس کے ساتھ مل کر حقیقت پسندانہ پالیسی بناتے ہوئے افغانستان میں مستقل قیام امن کے حوالے سے مشترکہ کوششوں کا حصہ بنیں گے یا پھر اوباما کی پالیسی کو لے کر آگے چلیں گے۔ بہرحال خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر افغانستان کے حوالے پاکستان کی اہمیت اور کردار کو کم یا ختم کرنے کی بھارتی کوشش ناکام رہے گی ۔


.
تازہ ترین