• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جھگڑا دراصل اس روز ہی شروع ہو گیا تھا جس روز احتساب عدالت نے 17برس بعد ایس جی ایس اور کوٹیکنا ریفرنسز میں آصف علی زرداری کو باعزت بری کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، تمام تر خامیوں کے باوجود قومی سیاسی سفر میں جس آئینی بالادستی، عدم تشدد اور استحصالی کلچر کے خاتمے کی علمبردار رہی ہے۔ آصف علی زرداری نے اس نصب العین کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی حوالے سے تختہ دار قبول کیا، بی بی نے جام شہادت نوش کیا، شاہنواز بھٹو پُر اسرار طور پر موت کی وادی میں اتار دیئے گئے، مرتضیٰ بھٹو کو رات کے اندھیرے میں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی دھرتی پہ لفظ ’’کرپشن‘‘ ایک سماجی فریب کاری کا تاریک کنواں بنتا جا رہا ہے جس میں ظلم اور بے انصافی کے شکار عوام کی لاشیں دفن کی جاتی ہیں۔
پی پی پی سمجھتی ہے کہ کراچی میں شروع ہونے والا ’’آپریشن‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ضیاء الحق کے ’’آپریشن‘‘ کا پرتو بن رہا ہے جو لوگ 17برس بعد آصف علی زرداری کی عدالت سے بریت پر زندہ موت کے منہ میں چلے گئے ہیں عدالت سے ان کی بریت پر ’’کچیچیاں‘‘ وٹ وٹ کے اپنے ہی جبڑے زخمی کر چکے وہ ضیاء کے 1977ء ’’آپریشن‘‘ کے نمونے کی رفتار تیز تر کر کے، ظلم اور بے انصافی کی من مانی تعبیروں کے ذریعے اپنی ذہنی تسکین کا سامان کر رہے ہیں۔ ہو یہ رہا ہے، پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود قومی منظر پہ ملکی قومی سیاسی کیمسٹری کے ساتھ متحرک، توانا، بیدار اور موجود ہے، 1967سے موجود اس مقابلے نے ہی پیپلز پارٹی کے مخالفوں کے نظریاتی اور فکری توازن کو بے اعتدالی کا شکار بنا دیا ہے تو اختلاف ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور مقدمے سے نہیں، اختلاف صرف ڈاکٹر صاحب کو سنگل آئوٹ کر کے ان کو کرپشن کے الزامات کے طومار میں پھنسانے سے ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کوآپ ’’ہم تو کرپشن کریں گے‘‘ کی سرخیاں جما کر ہدف تو بنا سکتے ہیں لیکن ان کی سیاسی جدوجہد کو دھندلانا ممکن نہیں، جب سید قائم علی شاہ کہتے ہیں ’’وفاق نے کرپشن کے نام پر سندھ پر چڑھائی کر رکھی ہے، تین چار ادارے حالت جنگ میں ہیں‘‘، تو وہ ایک بیان نہیں دیتے، 1967ء سے 2015ء تک پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتیوں کی تصویر کا بے چہرہ سیاہ پرنٹ سامنے لاتے ہیں، قومی سیاسی جدوجہد کے کرداروں کو الفاظ کے تیروں اور نشتروں کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔
اب ڈاکٹر عاصم کا کیا کریں، انہوں نے تو پھر کہہ دیا ’’وہ دل کے مرض میں مبتلا ہیں، ان کو ضروری ادویات مہیا نہیں کی جا رہیں، انہیں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اسپتال کے مریضوں کے بلوں پر کمپیوٹر سے ’’گینگسٹرز کے نام شامل کئے گئے، میڈیکل بل اسپتال کا ریکارڈ کیسے ہو سکتا ہے؟ اپنے بزرگ سر ضیاء الدین کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ہم پاکستان بنانے والے ہیں خراب نہیں کریں گے‘‘ پہلے بیان میں وہ کہہ چکے ہیں ’’جو یہ کہتے ہیں وہ لکھ کر نہیں دوں گا، یہ چاہتے ہیں طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کروں، مجھے پولیس کے حوالے کر دیا جائے، یہ مجھے کچا کھا جائیں گے‘‘ آئین اور قانون سے کوئی ادارہ بھی بالا نہیں اور نہ انسان قدرت نے کچرے کے ڈھیروں سے پیدا کئے ہیں، ہم قومی مزاج کے تناظر میں مجموعی طور پر ذہنی تعصب میں ڈھلے ہوئے لوگ ہیں، کیا یہ عجب بات نہیں، پنجاب جس میں کرپشن اور جرائم کے ریکارڈ سے کوئی بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتا وہاں گزشتہ 64برسوں سے ہر عہد میں ’’گونگلوئوں سے مٹی جھاڑ کر‘‘ مخلوق خدا کو پست ترین ضرب کاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنی ذمہ داری کے کنگرے پکڑنے کی کوشش کریں، یہ کنگرے ان کے ہاتھوں سے چھوٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ایک شخص کے لئے کراچی آپریشن کا رخ موڑنے کی کوشش جاری ہے، رینجرز کی تضحیک برداشت نہیں، سیکورٹی ادارے کو منفی یلغار میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے، صوبائی حکومت ہوش کے ناخن لے، وفاق کے پاس 4آئینی آپشن موجود ہیں، سندھ حکومت نے روش نہ بدلی تو ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو سامنے لائیں گے، ڈاکٹر عاصم سے متعلق نیب، ایف آئی اے کے ثبوت بھی سامنے لائیں گے، عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے، رینجرز جان ہتھیلی پر رکھ کر آپریشن کر رہی ہے۔ بعض لوگوں نے غلط کاریاں چھپانے کے لئے سندھ اور پاکستان کی سیاست کو ڈھال بنا رکھا ہے۔
اسمبلی میں حکومت پر ایک زبان سے تنقید، دوسری طرف خاموشی سے بھرتیاں، تبادلے، مراعات اور مفادات لینے والوں کے کردار کے بارے میں کیا کہوں۔ ای او بی آئی کیس سے لے کر ٹڈاپ تک اور سوئی گیس کمپنی سے لے کر پی آئی اے تک ان کی کارستانیوں اور کارگزاریوں پر مبنی انکوائری رپورٹس اور عدالتوں کے سامنے کیسز پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اتنی کرپشن کی کہ انہوں نے حج اور عمرہ کو بھی نہیں بخشا۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی دونوں بار میڈیا سے گفتگو کے جواب میں مولا بخش چانڈیو، نثار کھوڑو اور خورشید شاہ کے ردعمل پر بات ہو گی، پہلے خود خاکسار وفاقی وزیر داخلہ کے خیالات کے پس منظر و پیش منظر کے ماحول سے متعدد اشکالات کا سامنا کر رہا ہے۔ مثلاً چوہدری صاحب نے کہا ’’رینجرز کی تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی۔ سیکورٹی ادارے کو منفی یلغار میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے، رینجرز جان ہتھیلی پر رکھ کر آپریشن کر رہی ہے‘‘، سوال یہ ہے کہ کون سا پاکستانی اپنے کسی سیکورٹی ادارے کی تضحیک برداشت کر سکتا ہے، ہاں! وہ شخص یا جماعت اس کے نزدیک قابل گرفت ہیں جو ایک ہی معاملے میں مستقل ’’ہاتھی کھائیں اور کیڑوں سے پرہیز کریں‘‘ کا طرز عمل اختیار کریں اس موجودہ پارلیمنٹ میں، جنرل (ر) مشرف کو بہانہ بنا کر ہمارے محافظ قومی ادارے ’’افواج پاکستان‘‘ کے بارے میں خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے جو تقریریں کیں، پارلیمنٹ سے باہر دونوں نے اس موضوع پر جس قسم کا اظہار خیال کیا یا جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب منور حسن نے جس طرح افواج پاکستان کے شہیدوں کی نفی کی، جماعت اسلامی نے جس طرح افواج پاکستان کی قیادت کو نشانے پر لیا اور اس سب کے بعد جماعت کے فعال کارکنوں نے ’’معافی مانگنے‘‘ کے مطالبے پر جس دیدہ دلیری کے ساتھ ’’کس بات کی معافی‘‘ کی قطعی کسی ہچکچاہٹ سے رٹ باز بڑھک‘‘ لگائی، پاکستان کے محافظ قومی ادارے جس کے سینکڑوں جوانوں اور اب بچوں کا خون بھی اس دھرتی کی مانگ میں سندور بھر گیا، کبھی چوہدری نثار کے قلب پر ان لوگوں کی اس بے پناہ توہین پر (یہ ابھی ہلکا لفظ ہے) کوئی برق گری؟ کبھی درد کا کوندا لپکا؟ اور سید قائم علی شاہ کا رینجرز نہیں پالیسی پر ’’آئینی اعتراض‘‘ پر انہیں سیکورٹی ادارے کی ’’عزت‘‘ ڈولتی دکھائی دے گئی؟ نثار ظاہراً ہی نہیں کافی حد تک باطناً بھی معقولیت کی معقول مقدار کے حامل ہیں، کیا وہ واقعات کے تقابل اور تجزیئے میں انصاف کی یہی مقدار عمل میں نہیں لا سکتے؟
رہ گئے ادارے، ای او بی، ٹڈاپ، سوئی گیس، پی آئی اے یا ’’اسمبلی میں حکومت پر ایک زبان سے تنقید، دوسری طرف خاموشی سے بھرتیاں، تبادلے، مراعات، مفادات کا حصول‘‘ کس نے انکار کیا ؟ کس نے گزشتہ پانچ برسراقتدار برسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد وزرأ کی ’’بھوک‘‘ اور کارکنوں کے ’’کسر نکالنے‘‘ کے ریکارڈ کی نفی کی؟ کبھی نہیں، یہ کالم خود اس کا گواہ ہے، سوال وہی ہے، اداروں کی تباہی و بربادی، اسمبلی میں حکومتوں پر تنقید کے ساتھ مراعات، مفادات اور ہمارے کرائے کے مفادات کا حصول، غیر ملکوں میں دولت کے کوہ ہمالیاتی انبار اور کاروبار، پنجاب میں کرپشن اور ظلم کے انسانیت سوز قصے، احتساب کے نام پر صرف ’’جنرل مشرف‘‘ آغاز، کی پاکیزہ دھوکہ دہی اور۔۔۔ بس اور، سوال صرف یکساں انصاف کے مطالبے کا ہے، وہ بھی اس لئے کہ چوہدری صاحب ’’وفاقی وزیر داخلہ‘‘ ہیں، پنجاب کے صوبائی وزیر داخلہ نہیں!
اب آتے ہیں مولا بخش چانڈیو، نثار کھوڑو اور خورشید شاہ کی طرف، یہ تینوں حضرات بھی چوہدری صاحب کی طرح کے چلتے پھرتے مشہور لوگ ہیں، ایک فرق بس وفاقی وزیر داخلہ کو یاد نہیں رہا، یہ کہ ان کے دامن پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخی آئینی جدوجہد کے عظیم اثاثوں سے بھرے ہوئے ہیں، چنانچہ انہوں نے دیکھا، چانڈیو فوراً گویا ہوئے ’’دھمکیاں نہ دیں، ویڈیو چلائیں‘‘، نثار کھوڑو نے کہا ’’لگا سکتے ہیں تو گورنر راج لگائیں‘‘ حتیٰ کہ کمزور سا حزب اختلاف لیڈر خورشید شاہ ’’اب جنگ دور تک جائے گی‘‘ کہنے سے نہیں رکا، یہ وہی اثاثہ ہے جسے یاد رکھنے میں چوہدری صاحب سے بھول ہوئی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی قومی سیاسی جماعت ہے جس کی کونپلیں عوامی دھرتی سے پھوٹیں، یہ کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو کسی ان دیکھی غیرآئینی نرسری میں پیدا کی گئی ہو!
تازہ ترین