• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں پیپلز پارٹی کے سات روزہ بھرپور جشن نما کنونشن کو دیکھ کر یوں لگا جیسے یہ پارٹی پھر سے اڑان بھر سکتی ہے۔ نظریاتی پژمردگی میں پندرہ بیس ہزار سیاسی کارکن اکٹھے کر لینا کوئی آسان کام تو نہیں۔ عالیشان محل میں غریبوں کے دُکھوں کے مداوے کی باتوں پر جیالوں کا بھٹو کے نعروں پہ پھر سے دھمال ڈالنا، ایک تاریخی سیاسی عجوبہ نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن یہ زندہ حقیقت ہے کہ اور کوئی پارٹی نہیں جو غریبوں کو اپنی سیاست کا محور بنائے، تو پھر ’’زندہ ہے بھٹو‘‘ کے نعرے تو لگنے ہی ہیں جو ابھی بھی غریبوں کے دلوں میں بسا ہے۔ لاہور سے چلتے چلتے بلاول بھٹو کو صحافیوں سے ملنے کی توفیق ہوئی۔ بھلا ایک ملاقات میں کسی نووارد کا کوئی کیا پتہ لگا سکتا ہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات دور ہی سے نظر آ جاتے ہیں، ایسا غلط محاورہ بھی نہیں! نوجوان بلاول کو میں نے نہایت پُرجوش، ہوشمند، ذہین اور پختہ شخصیت پایا۔ وہ ٹوڈی بچہ نظر آیا نہ متلون مزاج۔ وہ نہایت ملنسار اور مہذب، سیاسی سائنس اور تاریخ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ جو یہ جانتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور جسے اس کا سلیقہ بھی ہے۔ وہ آسانی سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے۔ لیکن جب وہ نہایت بھونڈی لکھی ہوئی تقریریں بُرے لہجے میں چیخ چلا کر پڑھتا ہے تو اس کا تاثر دانشور اور متین بلاول سے قطعی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ پہلی ہی مختصر ملاقات میں میری اُن کی اچھی بھلی جھڑپ ہو گئی، اس کے باوجود کہ بی بی سے دیرینہ تعلق کا تقاضا کچھ اور ہی تھا۔ مجھے اُس پر ’’مودی کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ کا نعرہ لگانے پر بہت خفگی تھی۔ اس لئے بھی کہ خود اس کے نانا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (جنہوں نے پاکستان کو اس کی قومی سلامتی کا نظریہ اور اساس فراہم کی) اور والدہ محترمہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو ’’سلامتی کے لئے خطرہ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اور بھارت سے جنگ بازی کا نظریہ اپنا کر آپ کہاں شہری معاشرے اور جمہوریت کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ اور نہ ہی اس نظریہ پر چل کر بھٹو صاحب پھانسی سے بچ پائے اور نہ بی بی شہادت سے۔ لیکن پھر بات چیت یکسر بدل گئی اور اُن سے دوسرے اہم سوالات کئے جانے لگے۔ میرے اس سوال پر کہ وہ کیا ایک سینٹر لیفٹ (یعنی بائیں بازو کی معتدل) جماعت بنانے کے خواہاں ہیں؟ بلاول کا جواب دو ٹوک تھا کہ نہیں وہ تو ایک ’’لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ میری توقع سے بڑھ کر اُن کے جواب نے مجھے اپنا سر سہلانے پہ مجبور کر دیا۔ پھر اُن سے سوالات ہونے لگے: پیپلز پارٹی کا نیا نظریہ کیا ہے اور دیگر جماعتوں، خاص طور پر دائیں بازو سے کیسے مختلف ہے؟ وہ اپنی پارٹی (جس کی قیادت پر زمیندار اشرافیہ حاوی ہے) میں کیا انقلابی کایا پلٹ کریں گے کہ یہ سوشل ڈیموکریسی لا سکے؟ وہ اپنی پارٹی کی بُری شہرت اور ناکام حکومت کے بوجھ کو کیسے اُتاریں گے؟ سندھ میں فقط چہرے کی تبدیلی کے بعد وہ حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کیا کریں گے؟ اور یہ کہ کیا وہ اپنے والد زرداری صاحب کی بساطِ شطرنج کا مہرہ بنیں گے۔ یا پھر اپنی آزادانہ راہ اپنائیں گے جیسا کہ اُن کی والدہ محترمہ نے چچائوں سے جان چھڑا کر کیا تھا؟
میرے جنگ اور نیوز کے دو گزشتہ مضامین پر سوشل میڈیا پر خوب ہنگامہ رہا۔ بہت سوں نے اُنہیں بہت سراہا اور بہت سوں نے بلاول بھٹو کے سماجی، جمہور وادی ہونے پر نہایت سنجیدہ سوال اُٹھائے۔ بعض نے میرے بھی خوب لتے لئے کہ پیپلز پارٹی کی سوشلزم سے تاریخی بے وفائی یاد نہیں۔ بلاول کی باتوں سے مجھے لگتا ہے کہ وہ پکے آزاد خیال جمہوریت پسند ہیں، روشن خیال اور انسان دوست ہیں۔ لیکن سوشل ڈیموکریسی کے بارےمیں اُن کے ارادے میں کتنا وزن ہے، اس بارے میں فی الوقت اُنہیں شک کا فائدہ دینا چاہیے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ورثے کو آگے بڑھائیں گے اور والد کی سیاسی مہارت سے استفادہ کریں گے۔ گو کہ بلاول نے وزارتِ عظمیٰ کا دعویٰ کر دیا ہے، لیکن اغلب امکان یہی ہے کہ اگر اگلے انتخابات میں انتخابی نتائج منقسم ہوئے تو پھر آصف زرداری مخلوط حکومت کے لئے اپنے دائو پیچ استعمال کریں گے۔ سوشل میڈیا پر مجھ سے لوگوں نے یہ تقاضا کیا کہ میں اگر بائیں بازو کی سیاست کی نظر سے اُن پر سوالات اُٹھا رہا ہوں تو میرے پاس ان سوالات کا کیا جواب ہے اور اگر بلاول نے بائیں بازو کی سیاست کرنی ہے تو اس کا ایجنڈا آج کے حالات میں کیا ہو؟ اس وقت اگر خلا ہے تو بائیں بازو کی سیاست کا۔ اور اگر نئی طرح کی بائیں بازو کی سیاست گری ہونی ہے تو آج کے تاریخی حالات میں سماجی جمہوریت کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے؟
بنیادی مقصد تو ’’اسٹیٹس کو‘‘ یعنی مروجہ استحصالی نظام کو بدلنا ہے۔ ایک سوشل ڈیموکریٹک پلیٹ فارم کو پکا جمہوری، سیکولر (یا مذہبی رواداری)، وفاقی، عوامی اور کثرت پسند ہونا ہوگا۔ اس کی بنیاد سائنس، سماجی تحقیق پہ ہو، جو ہماری زور زبردستی والی زمینداری اور کرائے کی سرمایہ داری کا نعم البدل پیش کرے۔ یہ عوام الناس کی قوت پر انحصار کرے اور اُن کے لئے اُن کی قیادت میں سماجی نجات کی راہ فراہم کرے۔
پیپلز پارٹی کو ان چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا، اگر بلاول واقعی سوشل ڈیموکریسی کی راہ لینا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے پیپلز پارٹی کو اپنے پچھلے تینوں ادوار سے مختلف ایجنڈا دینا ہوگا جو ترقی پسند بھی ہو اور قابلِ عمل بھی۔ اس کے چند نکات حسب ذیل ہیں: (1)-ایک عوامی، جمہوری، وفاقی اور عوامی فلاحی ریاست کی تعمیر، (2)-مذہبی انتہاپسند بیانیہ کے توڑ کے لئے ایک انسان دوست، امن پسند اور جمہوری بیانیہ جو ترقی پسند نظریات پر مبنی ہو، اور جو ریاست کو مذہبی امور میں مداخلت سے باز رکھے اور مذہبی بنیاد پر تفریق و انتشار کا سدباب کرے۔ (3)-اب جبکہ آزاد منڈی کا واشنگٹن اتفاقِ رائے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ملی جلی معیشت کے ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جس کا زور منافع پر نہ ہو بلکہ لوگوں اور ملک کی ضروریات پوری کرنے پر ہو۔
اسی طرح ترقی کا ایسا ماڈل اختیار کیا جائے جس میں انسانی ذرائع کی ترقی، عوام کی خوشحالی اور غربت کا خاتمہ ممکن ہو۔ نیز یہ کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے پرانے جاگیردارانہ تسلط کا خاتمہ اور خوشحال زرعی معیشت کا پائیدار شراکت داری نظام کے ذریعے فروغ۔ (4)-ریاست کی قومی تعمیر یہاں کی جمہوری انسانی اور تہذیبی بنیاد پر قائم ہو اور جو ساری وفاقی اکائیوں کو مساوی بنیاد پر باہم جوڑے اور جہاں پر علاقے اور قومیت کے لوگ ترقی میں برابر کے شریک ہوں اور جس کی سرحدیں محفوظ اور ُپُرامن ہوں۔ اقتدار کی مقامی سطح پر منتقلی تاکہ عوام طاقت کا سرچشمہ بنیں اور اپنی خدمت آپ کریں۔ جیسے میونسپل سوشلزم۔ (5)-ریاست کا زور امیروں پر ٹیکس لگانے اور اپنے غیرپیداواری اخراجات اور بے مقصد ترجیحات کے بتدریج خاتمے پر ہو، اور محاصل کے اخراجات کا زور تعلیم و صحت، روزگار، فنی و پیشہ ورانہ تربیت، عورتوں کی مساوی ترقی اور محروم علاقوں کی پسماندگی دور کرنے پر ہو۔ (6)-سائنس، سماجی علوم، فنونِ لطیفہ، ثقافت اور رواداری کا فروغ۔ (7)-اقلیتوں کا تحفظ اور بطور شہری مساوی حق اور خواتین پر سماجی و پدرشاہانہ جبر کا خاتمہ اور اُن کی مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر میدان میں یقینی شرکت کے ذریعے فروغ۔ (8)-آزاد خارجہ پالیسی، اچھی ہمسائیگی اور پُرامن خطہ جس میں علاقائی تعاون اور رسل و رسائل کی ترقی اور اختلافات کے پُرامن حل کی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ جنگجوئیت، دہشت گردی اور اسلحہ کی دوڑ کو فروغ دیا جائے۔ (9)-سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت عوام میں سے ہو، جو جمہوری طور پر منتخب اور صاف ستھری ہو۔(10)-اچھی حکمرانی کے لئے، سول ملٹری تعلقات، آزاد اور مؤثر عدلیہ، کارآمد اور غیرجانبدار افسر شاہی اور حکومتی نظام میں دور رس اصلاحات جو شفافیت، میرٹ، جوابدہی اور محاسبے کو یقینی بنائے۔
یہ سب دور کی کوڑیاں نہیں، قابلِ عمل تجاویز ہیں۔ پیپلز پارٹی کو پھر سے میدان میں اُترنا ہے تو ذرا ان پر غور کر لیں ورنہ حالات کی ستم ظریفی تو چلتی ہی رہے گی اور سیاست میں دھوکے دیئے جاتے رہیں گے۔ دیکھیں بلاول کیا گل کھلاتے ہیں؟




.
تازہ ترین