• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک تقریب میں کسی خاتون نے چرچل سے کہا ’’اگر آپ میرے خاوند ہوتے تو میں آپ کو زہر دے دیتی‘‘ تو چرچل بولے ’’محترمہ اگر میری بیوی آپ ہوتیں تو میں زہر خود ہی کھا لیتا‘‘۔ ہرآدمی کی 3خواہشات، کاش وہ اتنا خوبصورت ہوتا جتنا وہ اپنی ماں کو نظر آتا ہے، کاش وہ اتنا امیر ہوتا جتنا اس کے بچے سمجھتے ہیں اورکاش اس کے اتنے ہی افیئرز ہوتے جتنے اس کی بیوی سمجھتی ہے۔ ایک بیوی نے خاوند سے کہا ’’سنو جی جس مولوی نے ہمارا نکاح پڑھایا تھا وہ آج فوت ہوگیا ہے‘‘ شوہر کا جواب تھا ’’برُے کم دا برُا نتیجہ‘‘۔ ایک بڑے اداکارکو جب بتایا گیا کہ’’ آج شوٹنگ ساری رات چلے گی لہٰذا وہ اپنی بیوی کو بتادیں کہ وہ پوری رات باہر رہیں گے‘‘ تو اداکار بولا ’’جب اس فلم کے سب خطرناک سین ڈپلی کیٹ ہی کر رہا ہے تو یہ اطلاع بھی اسی سے دلوادیں‘‘۔
ایک شخص کو الٰہ دین کا چراغ ملا اس نے چراغ رگڑا تو جن حاضر ہوگیا ،وہ شخص بولا ’’فوراً پاکستان سے امریکہ تک سڑک بنادو‘‘ جن نے جواب دیا’’ آقا یہ کام بہت مشکل ہے کوئی اور حکم‘‘ اس شخص نے کہا ’’تو پھر میری بیوی کو میرا فرمانبردار بنادو‘‘ جن بولا ’’سڑک سنگل بنانی ہے یا ڈبل‘‘۔ بیگم نے بڑے ہی لاڈ بھرے لہجے میں خاوند سے کہا ’جانو کچھ ایسا کہو کہ میں خوش بھی ہوجاؤں اور اداس بھی‘‘خاوند بولا’’ جانِ من تم میری زندگی ہو اور اس زندگی سے موت بہتر‘‘۔ جوہانسبرگ کے ایک میگزین کے مطابق ’’ایک بار جوانی میں ونی نے اپنے خاوند نیلسن منڈیلا کی اتنی پٹائی کی کہ پاس کھڑے منڈیلا کے دوست کا صبر جواب دے گیا، وہ ونی پر پستول تان کر بولا’’ اگر اب ہاتھ اٹھایا تو گولی مار دوں گا ‘‘۔ پھر اپنا دل تو تب سے گارڈن گارڈن کہ جب سے پتا یہ چلا کہ دنیا بھر کو ڈرانے والے امریکی صدر اپنی بیگمات سے خوفزدہ ، جیسے صدر جانسن اپنی بیگم سے اتناچالو تھا کہ اس نے ایک ملازم کی صرف یہ ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ جونہی بیوی پرائیویٹ حصے سے اسکے دفتر آنے لگے تو وہ اسے فوراً اطلاع کردے کیونکہ جس دن جانسن اپنی بیگم کو مجلسی مسکراہٹ کے سا تھ اپنے دفتر کے دروازے پر ریسو نہ کرتا اس دن اس کے ساتھ بہت براہوتا ، صدر ٹرومین کے منہ سے غلط بات بعد میں نکلتی اسکی بیوی اسے جھڑک پہلے دیتی، باربرا نے صدر بش کو سزا دینا ہوتی تو وہ اسے اپنے ہاتھ کا پکا کھانا کھلاتی، بش اس سزا سے ہمیشہ خوفزدہ رہتااور اپنی پچاسویں سالگرہ پر بل کلنٹن کا یہ کہنا کہ ’’میری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہی کہ کبھی میں ہیلری کی بات مان لیتا ہوں تو کبھی ہیلری اپنی بات منوا لیتی ہے‘‘۔
میرا وہ دوست جو جب پیدا ہوا تو کسی نے پوچھا ’’بیٹا ہوا یا بیٹی‘‘ تو اس کا باپ بولا ’’دھاندلی‘‘ ہوئی ہے، جو بچپن میں محلے کے جِم میں اکثر لوہے کے باٹ اٹھایا کرتا اور ایک بارتو باٹ اٹھاتے پکڑا بھی گیا ،جس نے بچپن میں 10صفحات کا مضمون اس پر لکھا کہ شلوار واحد ہے یا جمع اور اس مضمون کا اختتام کچھ یوں کیا کہ چونکہ شلوار اوپرسے واحد اور نیچے سے جمع لہٰذا یہ دونوں ہے ، جس کا دوستوں سے برتاؤ ایسا کہ اس میں برکم تاؤ زیادہ ، جس نے زندگی بھر کسی بے وقوف کو اپنا نہیں بنایا ہمیشہ اپنوں کو بے وقوف بنایا،جس نے ہمیں لفظ اوسط کا مطلب کچھ یوں سمجھایا کہ ’’ جب کسی شخص کا ایک پاؤں جلتے چولہے میں ہو اور دوسرا پاؤں فریج میں تو اوسطً وہ شخص پرسکون زندگی گزار رہاہوگا ،جسے جب پتا چلا کہ بندہ ایک گردے سے بھی زندہ رہ سکتا ہے تو اس نے فوراً کہہ دیا کہ ’’مرنے کے بعداس کا ایک گردہ عطیہ کردیا جائے‘‘ ،جس کی ایک تھیوری یہ بھی کہ’’ بچے کنٹرول کرنے والے اگر بڑوں کو کنٹرول کر لیں تو بچے ہوں ہی نہ‘‘ ،جس کی 5سالہ تحقیق کا نچوڑ کہ ’’چونکہ ساغر صدیقی اس لئے نہایا نہیں کرتا تھا کہ اسے پانی گیلا لگتا تھا لہٰذا اسے چاہئے تھا کہ وہ ٹونٹی بند کرکے نہا لیتا‘‘، جو مقررتو اتنا اچھا کہ لاکھوں کے مجمع کو کنٹرول کرلے مگر ناظر اتنا برا کہ ایک عورت کو دیکھتے ہی آؤٹ آف کنٹرول ہو جائے ،جو ادب شناس ایسا کہ اکثر کہتا کہ ’’مجھے مہدی حسن کی شاعری بہت پسند ہے ،خاص کر دیوانِ غالب میں موجود انکی غزلیں تو کمال کی ہیں‘‘،جو آجکل اس لئے ناپ تول کر بولتا کہ’’ایک روز جب اس کی دوسری بیوی نے غصے میں ڈکشنری اٹھا کر اسکے منہ پر دے ماری تو بقول اس کے اس دن اسے پتا چلا کہ الفاظ بندے کو کس طرح گھائل کردیتے ہیں ‘‘،جو اپنی فوت ہوچکی پہلی بیوی سے اب بھی اتنا ڈرے کہ ’’دبے قدم بیوی کی قبرسے چند فٹ دور کھڑا ہوکر فاتحہ پڑھ کر دبے قدم واپس آجائے‘‘ اور جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ گفتگو سن کر مرض اوربیوی دیکھ کرخاوند کے حالات بتادے ، ہمارے اسی دوست کا تجربہ کہے کہ ’ ’ شادی سے پہلے بیوی کی آنکھیں ہرنی جیسی لیکن شادی کے بعد طوطے جیسی ،شادی سے پہلے بیوی کان سے سنے اور زبان سے سنائے لیکن شادی کے بعد وہ آنکھ سے سنے بھی اور آنکھ سے سنا ئے بھی‘‘ ، اسی کا کہنا ہے کہ’’ ایک چالاک آدمی کیلئے ایک احمق عورت ہی کافی‘‘ ،اسی کاماننا ہے کہ’’شریف لوگوں کو تو الجبرا اور بیوی کی زندگی بھر سمجھ ہی نہیں آتی‘‘ اور 4شادیوں کے بعد ہمارا یہی دوست اس نتیجے پر پہنچا کہ’’ بندے کو تو ایک بیوی بھی زیادہ مگر مصیبت یہ کہ ایک سے کم بیوی ہو نہیں سکتی ‘‘۔
کہتے ہیں کہ محبت کی شادی میں راتیں اچھی اوردن برے اور پیار کی شادی اُس باکسنگ کی طرح کہ جس میں ناک آؤٹ خاوند ہی ہو ۔
باکسنگ سے یادآیا کہ ہمیشہ ہار جانے والے ایک باکسر نے اپنے کوچ سے پوچھا کہ’’ یہ ڈریسنگ روم باکسنگ رِنگ سے اتنا دور کیوں ہوتا ہے‘‘ ،کوچ جل کر بولا’’تمہیں کیا ،تم نے کون سا چل کر جانا ہوتا ہے ‘‘۔ بیوی کے حوالے سے ہمارے ہر سیانے نے بڑی سیانی باتیں کیں جیسے ایک سیانے نے جب کہاکہ ’’ عاشق، شاعر، سیاستدان اوربیوی کوزبان درازی کاحق حاصل ‘‘،تو دوسرا سیانا بولا ’’کراچی کی آب وہوا،کابل کے حالات ،واشنگٹن کے دعوے اور بیوی کے مزاج کا کوئی اعتبار نہیں ‘‘، پھر جب ایک سیانا بولا کہ ’’بیوی زبان سے سوچے اور اسکی زبان اس کے دماغ سے تیز چلے‘‘تو دوسراسیانا کہہ اٹھا کہ’’ اپنی بیوی پاس نہ ہو تو دوسرے کی بیوی پیاری لگے اور اگر اپنی بیوی پاس ہو تو دوسرے کی بیوی بہت ہی پیاری لگے‘‘اور پھر ایک سیانے کی یہ بات کہ ’’ بیوی کی تلاش میں نکلو تو آنکھ کی بجائے کان کا استعمال کرنا کیونکہ آپ نے اتنا بیوی کو دیکھنا نہیں جتنا اسے سننا ہے‘‘ تو جس جس نے بھی اس سیانے کی اس بات پر کان نہ دھرے وہ پھر بعد میں کان پکڑ ے ہی مِلا۔
چند سالوں میں تحقیق دانوں نے بیویوں پرجو تحقیق کی وہ تحقیق کم اور تفتیش زیادہ لگے، جیسے ایک تحقیق کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی بیویاں کنجوس،امریکی بیویاں دھوکے باز، فرانسیسی سیرو تفریح کی دلدادہ، بھارتی چغل خور ، اسپین کی نوکری باز، برطانوی کھیلوں کو پسند کرنے والی ، جنوبی افریقہ کی نرم مزاج ،ناروے کی سخت مزاج،عربی خاموش طبع،جاپانی ہلہ گلہ کرنے والی ،چینی سخت جان اور پاکستانی بیویاں فضول خرچ ،پھر جہاں ایک تحقیق نے یہ بتایا کہ 60سال جینے والی خاتون کا ایک سال صرف اس پرلگ جائے کہ ’’آج پہننا کیا ہے ‘‘اور میک اپ کرنے والی عورت 70سال تک پہنچتے پہنچتے 2 کلو لپ اسٹک کھا جائے وہاں دوسری تحقیق سے یہ پتا بھی چلا کہ مالدیپ شادیوں میں پہلے نمبر پر جبکہ بلجیم طلاق دینے والوں میں سرفہرست اور شوہروں کی سب سے زیادہ پٹائی اٹلی میں ہو،اسی طرح امریکی یونیورسٹی میں ہوئی تحقیق کے مطابق ایک باتونی خاوند پورے دن میں13ہزار الفاظ بولے جبکہ ایک باتونی بیوی کی دن بھر کی گفتگو20ہزار الفاظ پر مشتمل ،اب ایک تو میاں بیوی میں فرق7ہزار الفاظ کا اور اوپر سے صورتحال مزید خراب تب ہو جائے کہ جب خاوند شام کو گھرپہنچے تو وہ اپنے 13ہزار الفاظ کے اختتام پرہوجبکہ بیوی اس وقت اپنے20ہزار الفاظ کے درمیان میں اور پھر ایک مغربی محقق ڈاکٹر ایڈگر 5سال کی کھوج کے بعد بولا ’’ خوبصورت بیویوں کے شوہروں سے بدصورت یا قبول صورت بیویوں کے شوہروں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں‘‘ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ ’’ بات عمر کے کم یا زیادہ ہونے کی نہیں بات صرف یہ ہے کہ بدصورت بیویوں کے خاوندوں کو اپنی عمر لگتی زیادہ ہے‘‘۔
بہرحال دوستو قصہ مختصر ،گو کہ بیوی وہ چھٹی حس جو پہلی پانچ حسوں کو بھی ختم کردے، یہ آرٹ کا وہ نمونہ جو کبھی کسی کی سمجھ میں نہ آیااور گو کہ بیوی آتی خزاں ،بیوی جاتی بہار، بیوی صحرا کی دھوپ ،بیوی سردیوں کی دھند،بیوی اَن دیکھا خواب،بیوی کانٹوں بھرا گلاب،بیوی بے وقوف کا منصوبہ اور بیوی عقلمند کی سازش مگر پھر بھی بیوی کے بغیر گزارہ ممکن نہیں کیونکہ وہ وقت گیا کہ جب بنا بیوی کے کولمبس نے امریکہ دریافت کرلیا تھا اب تو بیوی کے بنا کسی کولمبس کو دفتر جاتے ہوئے دھلی جرابیں بھی نہ ملیں۔
تازہ ترین