• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں جب بھی اندرونی مسائل ہوتے ہیں تو وہ پاکستان کے حوالے سے سخت پالیسی اور مؤقف اختیار کر لیتا ہے جس کا مقصد اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانا اور عوام میں پاکستان مخالف جذبات اُبھارنا ہوتا ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نرنیدر مودی بھی اسی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ بھارت نے 500اور 1000 کے کرنسی نوٹ کی تبدیلی کو بھی پاکستان کے ساتھ منسوب کر دیا ہے۔ وزیراعظم سمیت تمام وزراء ، پارلیمنٹرنز اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ لیڈران عوامی اجتماع سمیت ہر فورم پر یہ بات باور کروا رہے ہیں کہ بھارتی نوٹوں کی تبدیلی کا سب سے اہم مقصد ملک میں دہشت گردی کو روکنا ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت میں پیسے کے زور پر دہشت گردی کرواتا ہے۔ پاکستان کے ریاستی ادارے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین میں کیش پیسے تقسیم کرتے ہیں بھارتی لیڈروں کے مطابق جو کوئی شخص بھارتی سیکورٹی فورسز پر پتھر برساتا ہے اس کو 500روپے اور جو پاکستانی جھنڈا اٹھاتا ہے اس کو 5 ہزار روپے فی کس دیئے جاتے ہیں اس کے علاوہ بھارت کے دیگر شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی یہی پیسہ استعمال ہوتا ہے۔ بھارت میں اس وقت لگ بھگ دس ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیںچل رہی ہیں جس میں سب سے نمایاں مقبوضہ کشمیر ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں ایک مرتبہ پھر خالصتان کے نام پر الگ ملک بنوانے کی بازگشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے ۔ ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کے دوران دیکھا گیا ہے کہ کانفرنس کے باہر امرتسرمیں سکھ نمائندوں نے آزاد خالصتان کے نعرے لگوائے اوراحتجاج ریکارڈ کروا یا۔ میڈیا میں یہ کم رپورٹ ہو رہا ہے کہ بھارتی پنجاب کے ہر قصبے اور ہر شہر میں مودی حکومت کے خلاف نفرت اور مزاحمت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آئندہ چند ماہ کے دوران بھارتی پنجاب اور یوپی میں ریاستی الیکشن ہونے جا رہے ہیں بھارتی پنجاب میں اکثریت سکھ کمیونٹی کی ہے جبکہ یوپی میں انتہا پسند ہندوئوں کی نسبت اقلیتی زیادہ اکثریت میں ہیں۔ یہ دونوں اسٹیٹ کے الیکشن بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو لیکر فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں اگر بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں دونوں ریاستوں سے شکست کھا جاتی ہیں تو مودی کی پالیسیوں کو شدید دھچکا لگے گا اور اگر یہ دونوں ریاستوں میں کامیابی حاصل کر جاتی ہیں تو نا صرف مودی اپنی پالیسیوں پر اور مضبوطی سے عمل در آمد کرنے کی کوشش کرے گا بلکہ جنونی ہندوئوں کو بھی طاقت ملے گی۔ اطلاعات ہیں کہ مشرقی پنجاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف جماعت اکالی دل کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رہنما اور سابقہ کرکٹر نوجوت سنگھ سدھونے پارٹی کی راج سبھا کی نشست اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاہے اور ساتھ ہی ان کی اہلیہ جو کہ ممبر پارلیمنٹ اور چیف پارلیمانی سیکرٹری بھی تھیں انہوں نے بھی جنتا پارٹی کو خیرباد کہہ دیاہے۔نوجوت سنگھ سدھو کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ عام آدمی پارٹی میں شامل ہونے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا جب کہ ان کی اہلیہ کانگریس میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئی ہیں۔ بھارتی حکومتی ادارے اور اسٹیبلشمنٹ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی مشرقی پنجاب میں مقبولیت کو لے کر انتہائی حد تک پریشان ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اگر حکمران پارٹی اور اس کے حلیف بھارتی پنجاب سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہ رہے تو کانگریس کو الیکشن جتوانے کے لئے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ سدھو کی اہلیہ کی کانگریس میں شمولیت انہی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ مشرقی پنجاب کے الیکشن انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جس میں اب تک اطلاعات کے مطابق عام آدمی پارٹی ، کانگریس اور بی جے پی اور ان کے حلیف سمیت تمام بہتر پوزیشن میں ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو آزاد خالصتان تحریک کے نظریے کی حمایت کرنے والے لیڈرز اور عام لوگوں کی حمایت حاصل ہے ۔اطلاعات ہیں کہ خالصتان تحریک کو زندہ کرنے والے سکھ رہنما نہ صرف بھارتی پنجاب کی پارلیمنٹ میں جا کر اپنی آواز بلند کریں گے بلکہ سیاسی اور جمہوری محاذ پر بھی خالصتان تحریک کو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح یوپی میں باھوجن سماج وادی پارٹی جس کی قیادت موجودہ وزیر اعلیٰ مایا واتی ، سماج وادی پارٹی جس کی قیادت ملائم سنگھ یادیو جبکہ کانگریس کی قیادت سابقہ اداکار اور سینئر رہنما راج ببر کر رہے ہیں ۔ بی جے پی کی الیکشن مہم کے انچارج ان کے صدر ایمت شاہ ہیں ۔یوپی میں باھوجن سماج وادی پارٹی اور سماج وادی پارٹی کی پوزیشن بہتر ہے اور یہ اقلیتوں کی نمائندہ جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔ ان دونوں ریاستی الیکشنوں کے پیش نظر حکمت عملی کے طور پر بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف سخت اور جارحانہ مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔بھارتی حکومت ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہر فورم پر پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف دونوں ریاستوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا ہے تا کہ وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ اسی طرح بھارتی حکومت کی کرنسی نوٹ تبدیلی پالیسی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں رہی اس پر بھی پاکستان مخالف سیاست کی جا رہی ہے اور یہ بات انتہائی احمقانہ اور مضحکہ خیز لگتی ہے کہ پاکستان بھارتی کرنسی نوٹوں کے ذریعے بھارت کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے لہٰذا اس کو تبدیل کیا جا رہا ہے تا کہ بھارت میں پاکستان اسپانسر دہشت گردی کے واقعات روکے جا سکیں۔ بھارت کی پاکستان مخالف پالیسی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ایسا کہنا بھارتی سیاسی مبصر اور تجزیہ نگاروں کا ہے ان کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان مخالف نعرے سے نہ صرف دونوں ریاستوں میں ناکام ہوتی نظر آرہی ہے بلکہ نوٹ تبدیلی سمیت اپنی دیگر پالیسیوں میں بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

.
تازہ ترین