• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی لمحہ محترمہ شہید کی یاد کے بغیر نہیں گزرتا.....سید یوسف رضا گیلانی…وزیراعظم پاکستان

ایک سال ، قیامت کا ایک سال ،دکھ، غم اور رنج و الم سے بھرے365دن گزر گئے۔ وقت یوں تو تیزی سے گزرتا ہے۔ لیکن یہ سال کیسے گزرا۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وابستگان، بھٹو کے شیدائی ، بے نظیر کے بھائی ہی جانتے ہیں۔ کس کرب میں بیتا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے اگرچہ آٹھ نو اقتدار کے بھی ہیں۔ لیکن یہ خوشی بھی غم کا لبادہ اوڑھے رہی ہے۔ اس عرصے میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرا ہو جب ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو یاد نہ کیا ہو۔ جب ہماری آنکھیں ان کی جدائی میں اشکبار نہ ہوئی ہوں۔ لیکن وہ تو یہی کہا کرتی تھیں کہ غم کو اپنی طاقت میں بدل لو، انہوں نے اپنے عظیم والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بے وقت موت کو  ان کی شفقت سے محرومی کو  ا پنی طاقت اور اعتماد میں ڈھال لیا اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔
خواتین کے حقوق اور آزادی کی بات امریکہ میں بھی ہوتی ہے۔ یورپ میں بھی۔لیکن ایک پسماندہ معاشرے  مذہبی تعصبات میں جکڑے سماج اورجاگیردارانہ روایات کی حامل تہذیب میں ایک خاتون کا پہلے قیادت اور پھر وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنا ایک طرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت اور دوسری طرف دختر مشرق کی طویل اور صبر آزما تگ ودو اور جدوجہدکا ثمر تھا۔ وہ مجسم جمہوری جدوجہد تھیں، ان کی شخصیت مردوں، خواتین ، نوجوانوں ، بزرگوں سب کے لئے ولولہ تازہ کا سر چشمہ تھی۔ ان کا حوصلہ دیکھ کر سب ہمت پکڑتے تھے۔ جنوبی ایشیا ہی نہیں پورے ایشیا بلکہ یورپ میں بھی کسی سیاسی رہنما یا خاتون نے اس عمر سے مصائب اور ابتلاؤں کا سامنا نہیں کیا ہو گا۔ تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔ زندگی کے چوبیسویں سال میں ہی انہیں ایک بدترین آمر کے جبر اور ستم سے مقابلہ کرنا پڑا۔ والد جیل میں تھے۔ والدہ بھی نظر بند رہتی تھیں، پارٹی میں بہت سے سینئر رہنما جیل جانے سے گھبراتے تھے۔ یہ کم عمر خاتون ایک طرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو جمہوری جدوجہد کے راستے پر لے کر چل رہی تھیں اور دوسری طرف والد سے جیل میں ملاقاتوں، مقدمہ لڑنے والے وکلاء سے مشوروں کے لئے بھی وقت نکالتی تھیں، پھر اپنے شفیق، ذہین ، عظیم والد کی شہادت کا صدمہ، دنیا میں بہت سے لوگ تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسے سانحے کا سامنا کر سکیں اور پھر محروم و مظلوم لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کریں۔ ایک شہید ،ایک مدبر ، ایک مفکر، ایک مصلح ، ایک انقلابی کی بیٹی نے کسی لمحے بھی آرام نہیں کیا ۔ قوم کو جگایا، محنت کشوں، دانشوروں، کارکنوں، ہاریوں کی رہنمائی کی۔
میں نے بہت سے قائدین کو قریب سے دیکھا ہے۔ عالمی رہنماؤں کی سوانح کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن یہ خصوصیات محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہستی میں ہی دیکھیں انہیں ہر سطح ، ہر فورم، ہر حلقے سے گفتگو کا ملکہ حاصل تھا۔ کھلی کچہریوں میں غریب ہاریوں سے بات کرتیں تو ان کے لہجے میں وہ محسوس کرتے کہ محترمہ ان میں سے ہی ہیں عمر کے آخری دنوں میں جب وہ اٹھارہ اکتوبر (سانحہ کارساز کراچی) کے سانحے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے مل رہی تھیں، کسی کی ماں، کسی کی بہن، کسی کی بیوی سے جب وہ بغل گیر ہوتی تھیں، سر پر ہاتھ رکھتی تھیں، تو یہ لوگ اپنے غم بھول جاتے تھے۔ وہ ہر طبقے کے انسانوں سے ان کے معیار اور ان کے مزاج کے مطابق بات چیت پر عبور رکھتی تھیں، کہیں وہ عام کارکنوں سے خطاب کر رہی ہوتیں، تو ان کی باتیں کارکنوں کے دل میں اتر جاتی تھیں۔ کبھی کسی یونیورسٹی میں اساتذہ طلبہ اور ماہرین تعلیم سے مخاطب ہوتیں تو محسوس ہوتا کہ وہ کسی کلاس کو لیکچر دے رہی ہیں۔ تاجروں، صنعت کاروں سے محو سخن ہوتیں تو وہ ایک ماہر اقتصادیات کا روپ دھار لیتی تھیں، ملکی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر تھی اور بین الاقوامی معاملات پر بھی ان کی اتنی ہی گرفت رہتی تھی۔ مذاکرات اندرون ملک مختلف سیاسی پارٹیوں سے ہوں، یا دوسرے ملکوں کے حکمرانوں سے، وہ اپنے موقف کے حق میں ایسے دلائل پیش کرتی تھیں کہ فریق مخالف قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ وزارت عظمٰی کے دونوں ادوار میں انہیں بہت سخت اپوزیشن سے واسطہ پڑا ۔ ان سے بھی ان کے رابطے ہوتے رہے مذاکرات بھی ہوئے۔ بین الاقوامی محاذ پر امریکہ، یورپ اور عالم اسلام کے بڑے بڑے رہنماؤں سے ان کی ون ٹو ون، ملاقاتیں بھی رہتی تھیں۔ وفود کے ساتھ بھی مختلف اہم امور پر مذکرات ہوتے تھے۔ ان میں پاکستان کے مفاد میں کامیابی اور سرخروئی محترمہ بے نظیر بھٹو کے تدبر ہی کا نتیجہ تھی۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو دنیا کے مسلمہ ماہر امور خارجہ تھے۔ اس لئے دو طرفہ تعلقات مستحکم کرنے امیر اور خوشحال مملکتوں سے پاکستان کے لئے تعاون کے حصول، عالم اسلام میں بیداری اور اتحاد کے لئے مسلسل تگ و دو تو انہیں ورثے میں ملی تھی۔ دونوں بار انہیں حکمران طبقوں کی ملی بھگت نے اپنی میعاد سے پہلے ہی اقتدار سے باہر جانے پر مجبور کر دیا ۔ ان کے خواب ادھورے رہ گئے۔ وہ اپنے منشور پر بھی بھرپور عمل نہ کر سکیں۔ لیکن انہوں نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے افکار کی جس مشعل فروزاں کو ہاتھ میں اٹھایا تھا۔ اسے انہوں نے کبھی بجھنے نہ دیا۔ وہ قریہ قریہ پھرتی رہیں۔ کارکنوں اور رہنماؤں کے حوصلے بڑھاتی رہیں۔
سانحہ کارساز کراچی سے اگلے دن محترمہ بے نظیر بھٹو نے بلاول ہاؤس کراچی میں پارٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں محترمہ نے پارٹی کے ساتھیوں اور کارکنوں کی بہادری اور دلیری کی تعریف کی اور شہید ہونے والے کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ مشکل اور سخت ترین حالات میں پارٹی کا ساتھ دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور یہ تاریخی الفاظ کہے۔ "مجھے آپ پر فخر ہے  آج میں آپ سے کہتی ہوں کہ جو مجھے چھوڑ کے جانا چاہتا ہے  چلاجائے  مجھے کوئی گلہ نہ ہوگا  کیونکہ اب میرا ساتھ دینے کا مطلب موت کو سر پر رکھ کر چلنا ہے  اپنے سروں پر کفن باندھ کر چلنا ہے  تبھی ہم اس ملک کے عوام کو ان کے حقوق دلوا سکتے ہیں اور شہید بھٹو کا مشن مکمل کرسکتے ہیں"۔
شہادت اس خاندان کی روایت ہے۔ شہادت ہماری پارٹی کا پانچواں اصول ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ اسلام ہمارا مذہب ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں تو ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ شہادت ہماری منزل ہے۔ قربانیاں ہماری ہم سفر رہتی ہیں۔ طویل مسافتوں سے پی پی پی کے کارکن کبھی نہیں گھبرائے ان کی ایک نسل سے دوسری نسل شعور اور قربانیوں کی مشعل لیکر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے بھی اپنے حصے کی جدوجہد بہت اعتماد اور حوصلے کے ساتھ کی ہے۔ وہ آج اگر اس کشور حسیں کے صدر ہیں تو یہ ان کی اپنی قربانیوں اور سیاسی شعور کا نتیجہ ہے۔ ایوان صدر جانے کا راستہ۔ جیل اور جلاوطنی سے گزر کر ہی نصیب ہوا ہے۔ وہ خاص طور پر محترمہ شہید کے نظریہ مفاہمت کو ہر جگہ نہ صرف فروغ دیتے ہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ماضی کی محاذ آرائیوں کو جاری رکھنے کی بجائے وہ ہر سیاسی پارٹی سے افہام و تفہیم کی کوشش کررہے ہیں۔
محترمہ کا نظریہ مفاہمت عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ انہیں اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کا ایوارڈ بھی پس ازمرگ تفویض کیا ہے۔ ملک گزشتہ کئی سال سے محاذ آرائی ، تصادم اور تنازعات میں مبتلا رہا ہے۔ اب جمہوریت کے استحکام اور ایک محفوظ و مامون مستقبل کیلئے مفاہمت اور اتفاق رائے کے جذبے کی ضرورت ہے۔ وہ سب سیاسی جماعتوں کی طاقت کو جمہوری اداروں کی طاقت بنانا چاہتی تھیں۔
محترمہ نے اسلام اور مغرب کے درمیان مفاہمت کو عالمی امن کیلئے ناگزیر قرار دیا تھا۔ مغرب و مشرق، شمال و جنوب، امیر اور غریب  ترقی یافتہ و پسماندہ کے درمیان مفاہمت دنیا کو محبت اور یگانگت کا گہوارہ بناسکتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو ایسی دنیا کی ہی بشارت دے رہی تھیں۔ ہم ایسی دنیا تخلیق کرکے اپنی چیئرمین اور اپنی شہید قائد کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین