• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باہر سے ڈاکٹری پڑھ کر آنے والے نوجوانوں سے ہمیں پوری ہمدردی ہے۔ جو اپنے خرچ پر باہر گئے، ڈگری لی اور اب وطن لوٹ کر قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) راستے کی دیوار بن گئی ہے اور مصر ہے کہ قوم کی خدمت شروع کرنے سے پہلے انہیں ایک معمولی سا امتحان پاس کرنا ہوگا تاکہ پتہ چل سکے کہ کیا واقعی وہ باہر سے پڑھ کر آئے بھی ہیں، یا نہیں۔ معاملہ بے حد سنجیدہ ہے، ہزاروں بچوں کا کیریئر دائو پر لگا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے اسلام آباد میں مظاہرے بھی کئے تھے، مگر پی ایم ڈی سی ماضی کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتی۔ ورنہ ٹیسٹ تو دور کی بات ان لوگوں کو بھی رجسٹریشن ملتی رہی ہے، جنہوں نے ڈگری کے نام پر محض کاغذ کا ٹکڑا پیش کیا تھا اور جو یہ بھی ثابت نہ کر سکے تھے کہ ’’عرصہ تعلیم‘‘ کے دوران وہ ملک سے باہر گئے بھی تھے، یا نہیں۔ ان میں وہ بھی شامل تھے، جنہوں نے چین سے ڈگری لینے کا دعویٰ کیا، مگر وہ چینی زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتے تھے۔ حالانکہ وہاں ذریعہ تعلیم چینی ہے۔ باہر کے پڑھے ان ’’ڈاکٹروں‘‘ کی صلاحیت کے حوالے سے بھی کئی سوال اٹھے، اور یہ شکایت عام تھی کہ وہ فشار خون ناپنے کے بھی اہل نہیں۔ باایں ہمہ، انہیں رجسٹر کیا جاتا رہا۔ وہ محض گیارہ ہزار روپے فیس ادا کرتے اور رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنز قرار پاتے۔ شکایتیں بڑھیں تو 2012 میں فیصلہ ہوا کہ باہر کے پڑھے ڈاکٹروں کی جانچ کیلئے ایک بنیادی قسم کا امتحان (نیشنل ایگزامنیشن بورڈ) ہوا کرے گا اور صرف پاس ہونے والے ہی پریکٹس کا لائسنس حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ ڈاکٹروں کی اس لاٹ کو یہ پابندی اچھی نہ لگی تو اسلام آباد ہائیکورٹ چلے گئے۔ وہاں سے بھی یہی فیصلہ آیا کہ ٹیسٹ تو بہرحال دینا ہی ہوگا۔ ٹیسٹ کی پابندی لگ گئی تیار لوگوں نے چور دروازے ڈھونڈ نکالے۔ پیسہ چلنے لگا، لاکھوں کی بولی لگتی اور رجسٹریشن مل جاتی۔ ایسے میں انہونیاں بھی ہوئیں۔ ذمہ دار لوگ بھی دیہاڑیاں لگانے لگے۔ راولپنڈی کا ایک نوجوان چین سے ڈاکٹر بن کر آیا تھا۔ امتحان میں بیٹھا، مگر فیل ہوگیا۔ اسی اثنا میں شہر کے چار ڈاکٹروں نے رابطہ کیا کہ پاس ہونا ہے، تو 18لاکھ لگیں گے۔ رقم وصول کرلی تو مزید چار لاکھ کا مطالبہ داغ دیا۔ وہ بھی پورا ہو گیا، تو بیچارے کو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور خودکشی کا ڈرامہ رچایا۔ باپ نے عدالت میں دہائی دی تو ملزمان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا۔ سو باہر سے ڈگری لیکر آنے والوں کا کیس اتنا آسان نہیں اور پی ایم ڈی سی ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ اس کے تو اپنے اہلکاروں کے خلاف انکوائریاں ہو رہی ہیں۔ ہنگاموں اور مظاہروں سے بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ٹیسٹ کے فیصلے کی توثیق ہائیکورٹ کرچکی جس کے خلاف اپیل کی راہ البتہ کھلی ہے۔ مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ امتحان سے گھبراہٹ کیوں؟ زندگی تو بذات خود مسلسل امتحان ہے۔ یاد رکھیں، جب چیزیں گڈمڈ ہوجائیں، ڈور الجھ جائے اور شکوک و شبہات سر اٹھانے لگیں۔ تو کوئی نہ کوئی راہ تو نکالنا پڑتی ہے۔
مسئلہ صرف باہر کے پڑھے ہوئے ڈاکٹروں کا ہی نہیں، اندرون ملک قائم نجی میڈیکل کالجوںکی اکثریت بھی ڈگری دینے والی فیکٹریوں کے سوا کچھ نہیں۔ اور طرفہ تماشہ یہ کہ بہت سے نام نہاد میڈیکل کالج تسلیم شدہ نہ ہونے کے باوجود بڑے دھڑلے سے کاروبار کر رہے ہیں۔ پی ایم ڈی سی انہیں بند کرنے کیلئے برسوں سے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ مگر بے سود۔ ان اداروں میں نہ تو بنیادی سہو لتیں موجود ہیں اور نہ ہی ضروری انفرا اسٹرکچر۔ اساتذہ کی فہرست میں بڑے نام ضرور موجود ہیں، مگر محض کاغذوں کی حد تک۔ انہوں نے تو شاید ان اداروں کی شکل تک بھی نہ دیکھی ہو۔ ایسے میں بچوں کو غیر معیاری تعلیم دی جا رہی ہے، جو کسی اور شعبے میں تو شاید چل جائے، مگر میڈیکل میں ہرگز نہیں۔ کیونکہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے، جنہیں آدھے ادھورے شوقیہ فنکاروں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہمارے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو پی ایم ڈی سی بذات خود بے بسی کا اظہار کرچکی کہ اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود ڈاکٹر ساز فیکٹریاں مسلسل پروڈکشن میں ہیں اور کچا پکا مال مارکیٹ میں پھینک رہی ہیں۔ کاروبار جاری رکھنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ طلباء بذات خود ان کی سب سے بڑی ڈھال ہیں اور پھرا سٹے آرڈرز کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ سفارش، لالچ اور دھونس اس کے علاوہ ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹی ہونے کے ناطے پی ایم ڈی سی کی تشویش بجا۔ لیکن کونسل اگر گریبان میں جھانکے، تو شاید یہاں بھی قصور اس کا اپنا ہی نکل آئے۔ ماضی میں نجی میڈیکل کالجوں کی جس انداز میں منظوری دی جاتی رہی ہے وہ کہانیاں بھی تو انہونیاں ہیں۔ ان اداروں کی تخلیق و نمو میں سرکاری اہلکاروں نے بھی تو بھر پور حصہ ڈالا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ چند برس پیشتر دو نہ چار، انیس عدد میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو ایک ہی گومیں منظوری مل گئی تھی۔ متعلقہ سیکرٹری صحت، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور دیگر عملے نے ان کی پینڈنگ فائلوں پر محض 10منٹ میں دستخط کردیئے تھے اور قلم تبدیل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی تھی۔اس زمانے کے بزنس ایڈوائزرز بس ایک ہی مشورہ دیا کرتے تھے کہ اگر آپ کی جیب میں پیسے ہیں تو دیر نہ لگایئے، میڈیکل کالج کھول لیجئے۔ کیونکہ جس قدر مال میڈیکل کالج سے بنایا جا سکتا ہے، کسی اور بزنس میں اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس بدعملی اور بے تدبیری کا نتیجہ وہی نکلا جس کا ڈر تھا۔ آج وطن عزیز میں میڈیکل ایجوکیشن کے حوالے سے پنڈورا بکس کھلا ہوا ہے۔ متضاد اور بے ہنگم قسم کے اقدامات نے معاملے کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ سلجھائو کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ میرٹ سے لیکر ایجوکیشن کی کوالٹی تک مسائل کا ایک انبار ہے۔ انسانی صحت سے براہ راست جڑے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لئے جانے کی ضرورت ہے، نجی شعبے میں کل 50 میڈیکل / ڈینٹل کالج ہیں۔ جہاں 60 فیصد نمبر والوں کیلئے داخلہ کھلا ہے، جبکہ 38 سرکاری کالجوں میں داخلے کیلئے کم از کم میرٹ 86 فیصد ہے۔ یوں تو عدل و انصاف، انسانی حقوق اور اخلاقیات کے ذکر سے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں، مگر خدا لگتی کہئے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 60فیصد نمبر والے کو داخلہ محض اس لئے مل جائے کہ اس کی جیب میں جائز ناجائز پیسے ہیں اور 85فیصد والا اس لئے محروم رہے کہ اس نے کسی مفلس گھرانے میں جنم لینے کا جرم کیا تھا۔ نجی طبی کالجوں میں ہر سال کم و بیش چار ہزار بچوں کو داخلہ ملتا ہے۔ سرکار اگر خود مزید میڈیکل کالج کھولنا نہیں چاہتی تو نہ کھولے۔ پہلے سے موجود پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے کے حوالے سے میرٹ کو یقینی بنادے۔ جہاں سرکاری کالجوں کا میرٹ ختم ہو، وہیں سے نجی کالجوں کا میرٹ شروع ہو جائے۔ سرکار کو صرف ان ہونہار مگر مفلس بچوں کی فیس پلے سے بھرنا ہوگی۔ جملہ پرائیویٹ کالجوں کیلئے جس کا پانچ برس کا تخمینہ بارہ بلین روپے کے لگ بھگ ہے۔ جس سے شاید اورنج ٹرین کا دو کلو میٹر ٹریک بھی تعمیر نہ ہوپائے۔ اس معمولی سے خرچے سے بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے۔ میرٹ کا بول بالا ہوگا۔ نجی طبی کالجوں میں سرکار کا عمل دخل بڑھنے سے ان کا معیار بہتر ہوگا۔ باہر کی خواری سے بھی بچ جائیں گے اور قیمتی زرمبادلہ مشکوک قسم کی ڈگریوں کی نذر بھی نہیں ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نااہل ڈاکٹروں کی پروڈکشن کا سلسلہ تھم جائیگا۔ بے شک انسانی جان سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔ اسے عطائیوں کے حوالے تو نہ کیجئے۔
تازہ ترین