• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یقین کے ساتھ اللہ اور شک کا ساتھی شیطان، یاد رہے کہ گمانوں کے لشکر میں یقین کا ثبات ایسے ہی، جیسے شر کے سامنے خیر ۔
قرآن میں 28مرتبہ یقین پر بات ہوئی جبکہ 99مرتبہ لفظ یقین آیا، کہا گیا ’’یقین رکھو اللہ کا وعدہ سچا اور یقین والوں کیلئے تو زمین پر بہت سی نشانیاں‘‘ فرمایا گیا ’’جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کیلئے دردناک عذاب‘‘ اور بتایا گیا ’’اللہ پر یقین رکھنے والوں کیلئے اللہ کارساز، مددگار، مہربان اور محبت کرنے والا‘‘۔ نبیؐ کا فرمان ’’یقین کے ساتھ تھوڑا سا کام بہتر، اُس بہت سے، جو بے یقینی سے کیا جائے‘‘۔ حضرت علیؓ کہیں ’’دل کی روشنی یقین، روح کی نصیحت یقین، دین کی درستی یقین، زہد کا پھل یقین، عقلمند کی چادر یقین اور علم کا کمال یقین‘‘، امام غزالیؒ کے مطابق ’’یقین تاریکی میں روشنی کا گلاب، یقین دولتِ لازوال کا معراجِ کمال اور یقین کو نہ کوئی ڈرا سکے اور یقین کو نہ کوئی لبھا سکے‘‘۔ صاحبو! جیسے اسلام کا ماخذ تسلیم اور تسلیم کی بنیاد یقین، ویسے ہی یقین کی ضد شک اور یقین کا گھن وسوسہ، ویسے تو یقین کی 3 قسمیں، علم الیقین، عین الیقین اورحق الیقین لیکن سلطان باہوؒ نے مزید دو اور بتا دیں، پہلی مراۃالیقین اور دوسری مخ الیقین، واصف علی واصف کا کہنا ’’یقین فقر میں داخل نہ ہو تو تذبذب کا شکار اور یقین کو تذبذب سے بچائے شب بیداری اور وسیع مشاہدہ‘‘۔ دوستو! اگر یقین نہ ہو تو قدم قدم پہ قدم لڑکھڑا جائیں، یقین نہ ہو تو زندگی سوالوں، گمانوں اور وسوسوں میں گھری رہے، یقین نہ ہو تو ذہنوں کے چور دروازے کھل جائیں، یقین نہ ہو تو حاصل بھی لاحاصل اور یقین نہ ہو تو پھر بے یقینی اور بے یقینی تو وہ وبا کہ علامہ اقبالؒ کہہ اُٹھیں!
سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
یہ بھی علامہ کا ہی کہنا کہ ’’یقینِ محکم عمل پیہم‘‘ مطلب اگر یقینِ محکم نہ ہو تو پھر عمل کسی کام کا نہیں، اگر گھر میں چراغاں اور دل میں تاریکی تو کوئی فائدہ نہیں، کوئی لاکھ صبح سے شام تک لاالٰہ الا اللہ کہتا رہے مگر یقین نہ ہو تو نتیجہ صفر اور اگر کوئی ایک بار یقین کے ساتھ سرجھکا لے تو کشتی پار، کتاب اللہ میں مزید ارشاد ہوا ’’میرے بندوں کو یقین کہ وہ مجھ سے مانگ کر محروم نہیں رہتے، تم کامل یقین والوں میں سے ہو جاؤ اور سن لو کہ یقین والے خود سے طاقتور پر غلبہ پالیں‘‘۔
قارئین کرام! آج سائنس اور فلسفے نے بے یقینی کو ایسی ہوا دے رکھی کہ کثرتِ مال کے اندر تنگی حال موجود، جو انسان کبھی ایک آقا کا غلام ہوا کرتا تھا آج کئی آقاؤں کا غلام اور حالت یہ کہ ایک طرف گلی گلی اور محلے محلے مایا پرستی، ہوس پرستی اور خود پرستی کی آتشِ نمرود تو دہک رہی لیکن دوسری طرف ابراہیمؑ سا یقین ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے، آج چند لمحوں کے غور کے بعد ہی یہ معلوم پڑ جائے کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل، یہ ایک اللہ کو مان کر کئی خداؤں کی پرستش، یہ فرقوں اور خانوں میں بٹا دین، یہ اقتدار کیلئے مذہب کا استعمال، یہ کفر کے فتوے، یہ بہتان و الزام بھرے جھگڑے، یہ سچ اور جھوٹ میں بھٹکتی مخلوق، یہ طرح طرح کی بحثیں اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ صاحبو! شبہات کی یہ سب دلدلیں، گمانوں کی یہ سب چالیں اور یہ سب وسوسے، صرف اس لئے کہ ہماری زندگیوں سے یقین غائب ہو اور جب یقین غائب تو پھر بندہ دوائی کو صحت اور صحت کو زندگی کا دوام سمجھ بیٹھے اور یوں کسی قذافی، کسی حسنی مبارک اور کسی صدام کو یاد ہی نہ رہے کہ ایک مقرر شدہ قیام کے بعد فرعون رہا نہ موسیٰ ؑ اور حسینؓ رہے نہ یزید۔
لیکن وہاں یہ سب کون سمجھے گا کہ جہاں یہ بھی بھلا دیا گیا کہ سرمایۂ یقین ہر سرمائے سے بہتر، جہاں ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال کما کر لوگ بڑے یقین سے کہہ رہے ہوں کہ’’ھذا من فضل ربی‘‘ اور جہاں غاصب و ظالم بخشش کے یقین کیساتھ احرام باندھے اللہ کے گھر میں ملیں، گو کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ ’’اللہ کا حکم نہ مان کر اللہ کے روبرو ہونا ایسے ہی جیسے اللہ کے دوبدو ہونا‘‘، لیکن پھر بھی یہ سب دیکھ کر محروم اور مسکین یہ سوچنے پرمجبور کہ یہ غربت اور یہ آزمائش صرف اُس کے لئے ہی کیوں اور جب کسی ذہن میں ’’کیوں‘‘ آ جائے تو پھر وہ چور دروازے کھلیں کہ بالآخر بندہ نہ صرف اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے بلکہ اسی مایوسی میں وہ یقین کی دولت بھی گنوا بیٹھے، لیکن کاش یہ سب مان لیتے کہ یہاں کوئی چاہے جتنی دولت بھی کما لے یا یہاں چاہے کوئی کتنا تنگدست ہی کیوں نہ ہو، ایک دن سب کو سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا اور کاش سب یہ جان جاتے کہ جس نبی ؐ پر اللہ درود بھیجے اس نبیؐ کو بھی یتیمی اور غریبی سے گزرنا پڑا، رات کی تاریکی میں گھر چھوڑنا پڑا اور طائف اور اُحد میں زخمی ہونا پڑا لیکن ہر مشکل کا ثابت قدمی سے مقابلہ کر کے حضورؐ یہ درس دے گئے کہ بالآخر کامیابی صاحبِ یقین کے ہی قدم چومے اور یقین محفوظ ہو تو پھر رحمتیں ہی رحمتیں۔
دوستو! یقین کے بنا ایمان صفر اور یقین کے بغیر عقیدہ زیرو، یہ یقین ہی کہ ابراہیمؑ بلا خوف وخطر آگ میں کود جائیں، یہ یقین ہی کہ اللہ کی رضا کیلئے اسماعیلؑ سرجھکا دیں، یہ یقین ہی کہ مچھلی کے پیٹ میں یونسؑ کے ہاتھ دعا کیلئے اُٹھیں، یہ یقین ہی کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر پورے قریش کو پہاڑی پر بلا کر محمدؐ صدائے حق بلند کریں، یہ یقین ہی کہ آپؐ سے کچھ کہے سنے بغیر حضرت ابوبکرؓ سفرِ معراج کی صداقت کی گواہی دیدیں، یہ یقین ہی کہ تلواروں کے سائے میں حضرت علیؓ بڑے سکون سے حضورؐ کے بستر پر سو جائیں، یہ یقین ہی کہ کافروں کو غار کے منہ پر کھڑے دیکھ کر حضورؐ بڑے اطمینان سے یہ فرما دیں کہ ’’فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘، یہ یقین ہی کہ قبلہ بدلنے کا سن کر عین نماز میں سب صحابہؓ قبلہ اول سے قبلہ دوئم کی طرف منہ کر لیں اور یہ یقین ہی کہ شراب حرام ہونے کا سن کر منہ کے قریب پہنچے جام پھینک دیئے جائیں، یقین کیجئے لا الٰہ الا اللہ سے محمد رسول اللہ تک اور بدر سے کربلا تک اگر کچھ تھا تو وہ یقین، لہٰذا دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے یہ ضروری کہ ہر شک کا گلا گھونٹ کر یقین کو اپنا لیا جائے کیونکہ یقین کے ساتھ اللہ اور شک کا ساتھی شیطان، یاد رہے کہ گمانوں کے لشکر میں یقین کا ثبات ایسے ہی جیسے شر کے سامنے خیر۔

.
تازہ ترین