• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں بلوچستان میں ہوں جہاں چند برس پہلے دہشت کا بسیرا تھا مگر اب بلوچستان کی فضا بہت حد تک پرامن ہے اگرچہ کبھی کبھار کوئی ایک آدھ واقعہ ہو جاتا ہے مگر بحیثیت مجموعی بلوچستان پرامن ہے۔ مجھے اس صوبے سے زیادہ محبت اس لئے ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری ایام زیارت میں بسر ہوئے تھے۔ بلوچستان کی بدلی ہوئی فضا پر پھر کسی دن کالم لکھوں گا کیونکہ بلوچستان کے وسائل اور مسائل پر لکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو میں آرمی چیف کی قیادت میں خضدار کے قومی سیمینار میں شرکت کر کے کوئٹہ پہنچ چکا ہوں گا جہاں آج ترقی نسواں کے حوالے سے میری ملاقات سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور ممتاز سماجی کارکن جویریہ ترین کے ساتھ طے ہے۔ فی الحال اس شام کا حال، ابھی رات نصف شب سے آگے ہے، یہ خاکسار رقمطراز ہے اور صبح سویرے چھ بجے عازم سفر ہونا ہے۔ کور کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل عامر ریاض کے ڈنر سے آتے آتے نصف شب ہوگئی، ان سے بہت باتیں ہوئیں، مختصر یہ ہے کہ جنرل عامر ریاض کے دل میں بلوچستان کا درد ہے، یہ وسیع ہوتا ہے تو پاکستان کا درد بن جاتا ہے، ایک فوجی کمانڈر ہونے کے باوجود جنرل عامر ریاض میں بھرپور سیاسی قائدانہ صلاحیتیں ہیں، انہیں معاملات کو سلجھانا خوب آتا ہے، ان کی نظر بلوچستان کے امن و امان کے علاوہ سوشل سیکٹر پر بھی ہے، ان کی خواہش ہے کہ بلوچستان میں تعلیم اور ترقی ہو، ان کے بقول پاکستان میں سی پیک کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، پاکستان ایک نعمت ہے، پاکستان کی اہمیت کو کسی طور بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل عامر ریاض کے ساتھ گپ شپ میں نارنگ منڈی کے چاولوں کا تذکرہ بھی ہوا، پنجاب کے اضلاع نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب میں پیدا ہونے والا چاول دنیا کا بہترین چاول ہے۔ سندھ میں لاڑکانہ میں چاول پیدا ہوتا ہے، لاڑکانہ کے علاقے مہوٹا کا امرود بہت شاندار ہے، خدا نے پاکستان کے ہر گوشے کو نعمتوں سے نوازا ہے۔
میڈیا پر پھر سے پاناما کا تذکرہ شدت سے ہونے لگا ہے، معاملہ عدالت میں ہے اس پر کچھ کیا کہنا، چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے گھریلو ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس لے کر بہت اچھا کیا ہے، ان کے اس عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں، ہر ایک کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے، سچ ہے کہ تشدد پر ضلح کیسے ہوگئی؟ عدل ہونا چاہئے تاکہ معاشرے میں بہتری کے سارے امکانات روشن ہوسکیں۔
شیخ رشید احمد کہہ رہے ہیں کہ قومی حکومت بننی چاہئے۔ آصف علی زرداری نے 27دسمبر کو اپنی تقریر میں میاں صاحب کو مخاطب کر کے کہا تھا ’’.....آپ نے میری جمہوریت کا خانہ خراب کردیا ہے.....‘‘ اسی تقریر میں آصف علی زرداری نے یہ نوید سنائی تھی کہ وہ خوداور بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے رکن بنیں گے۔ یہ اعلان تو انہوں نے کردیا مگر میرے خیال میں پارٹی کے اندر بھی اس ’’نوید‘‘ کو نہیں سراہا گیا ہوگا، ویسے بھی آصف علی زرداری کیلئے الیکشن لڑنا اس وقت کافی مشکل ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے سامنے جائیدادوں کی پوری تفصیل پیش کرنا پڑے گی، شاید آصف علی زرداری ایسا نہ کرسکیں۔ شاید وہ اپنی جگہ ڈاکٹر عاصم حسین کو قومی اسمبلی کا رکن بنوائیں۔ آصف علی زرداری کا خیال ہے کہ ایم این اے بننے کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کو پارلیمنٹ کی چھتری نصیب ہو جائے گی ہاں البتہ بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے رکن ضرور بن جائیں گے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کیلئے جو سیٹ خالی کروائی گئی ہے وہ ان کی والدہ کی آبائی سیٹ نہیں ہے، واضح رہے کہ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی آبائی نشست سے فریال تالپور قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔
عمران خان کراچی میں ایک کینسر اسپتال کا سنگ بنیاد رکھ آئے ہیں۔ عمران خان اس حوالے سے ممتاز اور منفرد ہیں کہ انہوں نے کسی بھی حکومتی عہدے کے بغیر لاہور، پشاور میں کینسر اسپتال بنائے، اب کراچی میں بنا رہے ہیں۔ یہ اعزاز کسی اور سیاستدان کے حصے میں نہیں آیا۔ عمران خان نے کراچی میں پارٹی کارکنوں کو بھی گرمایا، کچھ ملاقاتیں بھی کیں، ممتاز بھٹو کا تو پتہ نہیں مگر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شاید عمران خان کے ساتھی بن جائیں، اطلاع ہے کہ اس سلسلے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے چند قریبی دوستوں سے مشاورت بھی کی ہے۔ سندھ کی کچھ اور شخصیات بھی عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔
کراچی کی سیاست میں اگلے چند مہینوں میں نمایاں تبدیلی ہونے والی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ عرصے بعد پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان ایک ہو جائیں گی پھر اس پارٹی کی قیادت پرویز مشرف کریں گے لیکن پرویز مشرف پارٹی کو کراچی، حیدرآباد تک نہیں رکھیں گے بلکہ پارٹی کو ملک گیر بنانے کی کوشش کریں گے۔
سیاسی موسم میں تبدیلیاں ہونے والی ہیں، شاید اسی لئے مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھیگتے ہوئے موسم میں یونہی موسم کی ادا دیکھ کے کہہ دیا ’’.....موسم بدل رہا ہے، وکیل بدل چکے ہیں، اب رت بدلنے والی ہے.....‘‘ چلتے چلتے خوبصورت موسم میں فرحتؔ زاہد کا شعر پڑھتے جایئے کہ؎
بادل، خوشبو اور جوگی سے آخر کون کہے
مجھے تمہارا آنا جانا اچھا لگتا ہے


.
تازہ ترین