• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کے ہاں کام کرنے والی بچی ’’طیبہ‘‘ کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کی از خود سماعت کے دوران پولیس کو دس دنوں کے اندر اندر تحقیقات اور تفتیش مکمل کرنے اور طیبہ کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ بچی کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اور پاکستان بیت المال کے سابق ایم ڈی خان زمرد خان کے قائم کردہ سویٹ ہومز کی تحویل میں دینے کا حکم دیا۔ کیس کی آئندہ سماعت 18جنوری کو ہوگی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ انسانی حقوق اور عمومی اہمیت کا اہم ترین مسئلہ ہے کہ ہم بچوں کی جانوں اور اُن کی عزت و آبرو اور صحت کا خیال رکھیں۔ اس کیس میں بھی ڈی این اے رپورٹ بہت اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ بچی کے بارے میں کوئی مصدقہ ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ اسلام آباد کے ڈی آئی جی کاشف محمود نے متاثرہ بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش کیا جبکہ بچی کے والدین ہونے کے تین دیگر دعویدار بھی موجود ہیں۔ بچی کا والد ہونے کے ایک دعویدار محمد اعظم نے بتایا کہ وہ جڑانوالہ کا رہنے والا ہے اس کی بیوی نصرت بی بی کے تین بچے ہیں، دو لڑکیوں میں سے ایک بچی طیبہ ہے۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر پتہ چلا کہ بچی کے ساتھ تشدد ہوا ہے۔ بچی کے مبینہ والد اعظم کا کہنا ہے کہ وہ اَن پڑھ ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی پڑوسن نادرہ نے بچی کو نوکری دلوائی تھی۔ 18ہزار روپے بطور ایڈوانس دیئے گئے تھے اور بتایا تھا کہ تین ہزار روپے ماہوار ملیں گے۔چیف جسٹس نے ڈی آئی جی کو کہا کہ یہ تفتیش بھی کی جائے کہ بچوں کو گھروں میں نوکریاں دینے کا کام کرنے والا کوئی گروہ تو متحرک نہیں ہے۔ پولیس کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر اس معاملے کی پوری تحقیق و تفتیش کرے۔ جوان بچیاں بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں ان کی زندگیوں اور عزت کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور اس سلسلے میں قوانین کا موثر استعمال ہونا چاہئے۔قانون کی عملداری بھی ضروری ہے مگر معاشرے کا اخلاقی اور سماجی فرض بھی ہے کہ کمزور لوگوں اور طبقوں کی عزت اور آبرو کی حفاظت کو مقدم سمجھا جائے۔ اس سلسلے میں خان زمرد خان کا کردار بھی قابل قدر اور لائق تحسین ہے جنہوں نے بیت المال کی سربراہی کے دور میں ملک کے یتیم اور ضرورت مند بچوں اور بچیوں کی حفاظت کے لئے سویٹ ہومز بنائے اور ان بچوں کو اپنے گھروں جیسا ماحول فراہم کیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ جن معاشروں میں یتیموں کو یتیم خانوں کی حفاظت فراہم کی جاتی ہے ان معاشروں میں یتیم بچے اور بچیاں عام طور پر محفوظ نہیں ہوتے ورنہ ذمہ دار معاشروں میں یتیم بچوں کو غیرمحفوظ ہونے کا اندیشہ، خوف یا خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ دنیا کے جدید ترین مذہب اسلام کو ماننے والے اور قبول کرنے والے لوگوں کو جن کا دین، دین فطرت بھی کہلاتا ہے قدرت اور فطرت کے تمام تقاضوں کی اُسی انداز میں پابندی کرنی چاہئے جس انداز میں خان زمرد خان کے ’’سویٹ ہومز‘‘ میں کی جاتی ہے۔




.
تازہ ترین