• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انگلیوں پر گنناشروع کیا تو حیرت ہوئی کہ نیا سال پٹاخوں دھماکوں کی گونج اور فائر ورکس کی روشنیوںمیں شروع بھی ہوگیا اور اس کا پہلامہینہ اپنے وسط تک بھی پہنچ گیا ۔ سیکنڈز اور منٹوں کی بات ہی کیا ہے سال پہ سال گزرتے جارہے ہیں اور اسی تیز رفتاری میں ہر گزرے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر کیا کھویا کیا پایا کا جائزہ لیتے ہیں تو خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات خودمیں اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔یہ دونوں احساسات ہیں بھی عجیب، د یار غیر میں بیٹھ کر وطن عزیز میں ترقی کی ہلکی سی رمق محسوس کر کے بھی خوشی ہوجاتی ہے اور گولیوں دھماکوں کی اطلاع شدید غمگین بھی کر دیتی ہے ۔ گزرے برس کی بات ہی لیجیے ،جاتے جاتے پی کے سکس سکس ون کے صدمے سے دوچار کر گیا جو عام پاکستانی کے ساتھ دل دل پاکستان سے یا مولا کاہر دم ذکر کرنے والے ہر دل عزیز جنید جمشید کو بھی ساتھ لیتا گیا۔جس پر تحقیقات تو کیا ہوتیں ہماری طرح ہر ملک کا تارکین پاکستانی بھی خوب جانتا تھا کہ نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا ۔ اس وہم کو تقویت تب ملی جب خود جناح انٹرنیشنل کراچی ائیرپورٹ پر لینڈ کیا ( بذریعہ پی آئی ائے تو ویسے بھی سفر نہیںکرتے اتنے تازہ واقعے کے بعد رہی سہی ہمت بھی خیر بادکہہ چکی تھی ) ائرپورٹ کا وہی مصروف انداز اس تازہ واقعے کو بھی یاد ماضی کا بھولا بسرا قصہ بتا رہا تھا ۔ خیر ایک طرح سے تو یہ اچھا ہی ہے وطن عزیز میں دہشت گردی کے اتنے واقعات ہوتے رہے ہیں اگر وہاں کی عوام ان سب کو یاد رکھیں تو ہم ریسٹورنٹس، ہوٹلوں اور بازاروں کی جس رواں دوا ں چمک دھمک کے چشم دید گواں بن کر آئے ہیں وہ حقیقت تو کبھی بن ہی نہیں سکتا تھا ۔ سڑکوںمیں رش کا یہ عالم کہ گویا گھر خالی ہیں اور عوام کے شب وروز بس باہرہی بسر ہورہے ہیں ۔ نامور تو کیا محلے میں بنی بیکری جس کے اند باہر بھن بھن کرتی مکھیوں سے، وہاں حفظان صحت کے اصولوں کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے، کا صاف پتہ چلنے کے باوجود بھی، گاہکوں کی ایسی بھیڑ کہ بیکری مالک کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی والی قسمت پر رشک آئے ۔ٹھیک ہی تو ہے جب وہاں رہنا ہی ہے تو پھر ڈر ڈر کے کیا جینا ۔یہ توہم تارکین و طن پاکستانی ہیں جو وہاں کی خبریں یہاں دیکھ دیکھ کر دہلتے رہتے ہیں اور وہاںجا کر بھی اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے پریشان رہتے ہیں اور واپس آکر رب کے شکر گزار ہوتے ہیں کہ ساتھ خیریت کے واپسی ہوئی ۔لیکن دکھ تب ہوتا ہے جب د نیا کے کسی دوسرے حصے میں اپنے ہی جیسے انسانوں پر بے جا ظلم کی خبریں سنتے ہیں ۔جہاں نہ بازاروں میں رونقیں ہیں نہ خوشی کے شادیانے بجتے ہیں ۔ سنائی دیتی ہے تو صرف دھماکوں کی گونج ۔جہاں کھانے پینے کا کس کو ہوش ہو وہاں تو انسانی خون اور گوشت سر عام پڑا ہے بے قدر و قیمت۔ہمارے پی کے سکس سکس ون کے سانحہ کے بعد خانہ جنگی کے شکار شام کے شہر حلب پر بشار حکومت اور اس کے اتحادیوں کی بمباری نے اس شہر کو مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل کردیا۔ کتنے ہی گھر تباہ ہو گئے ،خاندان کے خاندان بے نام و نشان ہوگئے ۔ چھ برس بیت گئے شام ڈھلتا رہا اور آج تقریبا ڈوب چکاہے (یہ اور با ت ہے کہ اسلام کا قلعہ کہے کر فخر کرنے والے وطن عزیز میں اس المیے پر مکمل سناٹا ہے ) اب تو اقوام متحدہ بھی مزید پناہ گزینوں کو پناہ دینے سے قاصر نظرآ تا ہے اور اقوام عالم کو مدد کے لئے پکارنے پر مجبور ہوگیا ہے لیکن کس کان پر جوں رینگ رہی ہے وہ نظروں سے ابھی بھی اوجھل ہے۔ گزشتہ سال کتنا کچھ تبدیل ہوگیابرطانیہ نے برسوں پرانی یورپ سے دوستی ختم کر لی اور دنیا کودکھایا کہ ہم برطانوی یورپ کے سہارے کے بغیر بھی کھڑے رہ سکتے ہیں۔کوششیںتو سکاٹ لینڈ نے بھی برطانیہ سے الگ ہونے کی کی تھیں لیکن شاید سکاٹش عوام اس علیحد گی کے لئے تیار نہ تھی اس لئے یہ تعلق نئے سال میں بھی قائم ہے ۔ اوبامہ کی جگہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار سیاست کے کھلاڑی نے نہیں بلکہ ایک ملٹی ملینیر اور ٹی وی سٹار نے صدارتی کرسی حاصل کر کے بریگزٹ سے زیادہ حیرت میں ڈال دیا ۔ اتنی تبدیلیاںہوگئیں لیکن شام اور باقی مشرق وسطی کی حالت نہ سدھری نہ کسی سدھار کی امید بنی ۔ حلب کے واقعے نے اس میں تیل کا کام کیا اور اس کے ر دعمل کے طور روسی سفیر پرحملہ اور برلن ٹرک حملہ۔کتنا کچھ کھو دیا اوراس دھول میں کیا پایا وہ نظر ہی نہیں آرہا ۔ لیکن دعائیں ابھی بھی زند ہ ہیں، امیدیں پھر جاگ رہی ہیں۔ نئے سال میں سب نیا ہو اچھا ہو، یہ سوچ ہے یہی آس ہے۔



.
تازہ ترین