• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینیٹ میں بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے دہشت گردی کو پاکستان سے منسوب کرنے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد مذمت کا پاس ہونا قابل تحسین امر ہے۔ یقیناً مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ ابھی بھارتی فوج کی تازہ کارروائی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 3بے گناہ کشمیریوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ اس سے قبل اب تک حالیہ تحریک آزادی میں150 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جموں وکشمیر میں اپنے انسانیت سوز مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے عالمی برادری کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا بھی گووا میں حالیہ برکس سربراہ کانفرنس میں دیا گیا پاکستان مخالف بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایوان بالا میں نریندر مودی کے خلاف متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سینیٹ کی طرح اب قومی اسمبلی میں بھی نریندر مودی کی پاکستان مخالف سوچ اور ناپاک عزائم کے خلاف متفقہ قرارداد منظور ہونی چاہئے۔ بھارت اور عالمی برادری کو یہ پیغام پہنچانا ازحد ضروری ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ مظالم کی سخت مذمت کرتی ہے اور ہم کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لئے مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے بھی اعتراف کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد عالمی امن کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس وقت نومنتخب امریکی صدر کی اسرائیل نواز پالیسی اور متنازع بیانات کے خلاف امریکہ سمیت دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کئی عالمی رہنمائوں نے بھی ٹرمپ کے خلاف سخت بیانات دیئے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی الیکشن کے نتائج کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ مشکلات میں پھنس گئے ہیں۔ اسی تناظر میں امریکہ میں ہفتہ احتجاج شروع ہوچکا ہے۔ 200ترقی پسند تنظیمیں نئی امریکی انتظامیہ کے خلاف سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ خواتین نے بھی اپنے حقوق کے لئے ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔ 20جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کاحلف اٹھائیں گے مگر20 ارکان کانگریس نے تقریب حلف برداری کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ان حالات میں نو منتخب امریکی صدر کو اپنے متنازع بیانات پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور انہیں مسلمان مخالف پالیسی کو بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ فرانس کے وزیرخارجہ ژان مارج ایغو نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کیا تو اس کے انتہائی سنگین نتائج نکلیں گے۔ اب امریکہ کھل کر اسرائیل اور بھارت کی حمایت کرے گا۔ پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں کو مثبت طرز فکر اپنانا چاہئے اور اب امریکہ کے سامنے جھکنے کی بجائے مسلم ممالک اور عالمی رائے امہ کو بیدار کرنا چاہئے۔ اس وقت فرانس ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطین کے معاملے پر پالیسی کے خلاف احتجاج کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ترکی، پاکستان سعودی عرب، ایران اور دوسرے مسلمان ملکوں کو بھی متحد ہو کر امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ چین، روس اور یورپی ممالک کو ساتھ ملا کر فلسطین اور جموں وکشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کو زیادہ تیز کرنا چاہئے۔
اسی طرح پاکستانی حکومت کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے فوری عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے میڈیا کے نام اپنے دردمندانہ خط میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے خود رابطہ کیا ہے کہ اگر صدر مملکت ممنون حسین یا وزیراعظم نوازشریف عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے امریکی حکومت کو خط لکھ دیں تو یقینی طور پر ان کی رہائی عمل میں آسکتی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ اوباما کی صدارت کی مدت ختم ہونے والی ہے۔ امریکی اٹارنی اسٹیفن ڈائونز نے بتایا ہے کہ صدر اوباما اپنی صدارت ختم ہونے سے پہلے 300قیدیوں کی سزائیں معاف کر کے انہیں رہائی دیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف جب برسراقتدار آئے تھے تو انہوں نے عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی اور بیٹی مریم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 100دنوں میں عافیہ کو رہائی دلوا کر وطن واپس لائیں گے۔ پاکستانی وزارت داخلہ اور خارجہ کو بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے عملی طور پر سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئے تھے مگر وہاں روایتی اور شرمناک خاموشی طاری ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ایک سال بعد پاکستان میں الیکشن سے پہلے شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی تجویز زیر غور ہے۔ حکومت کو عافیہ صدیقی کی رہائی میں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے وعدے کی لاج رکھنی چاہئے۔ اگر انہوں نے پاکستان کی بیٹی کی رہائی کے لئے اپنا کردار ادا نہ کیا تو قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ المیہ یہ ہے کہ 3پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ اب غدار وطن ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی امریکہ مانگ رہا ہے لیکن ہماری بےبسی کاعالم یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ یہ کہہ رہی ہے کہ ہماری حکومت صرف ایک خط لکھ دے تو عافیہ صدیقی رہا ہو سکتی ہے مگر یہ اقدام ہم کرنے کو تیار نہیں ہیں؟ آخر ایسا کیا معاملہ ہے جس کی وجہ سے ہماری حکومت خاموش بیٹھی ہے؟ ہمارے ارباب اقتدار کو قومی غیرت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔ فیس بُک پرمیں نے خود ویڈیو دیکھی ہے جس میں مئی 2013کے الیکشن جیتنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف، عشرت العباد، قائم علی شاہ اور اسحاق ڈار کے ہمراہ عافیہ صدیقی کی والدہ اور ان کی بیٹی مریم سے کراچی میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائش گاہ پر ملاقات کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے اس وعدے کو جلد پورا کرنا چاہئے۔ جس طرح وزیر اعظم نواز شریف مریم نواز کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں اُسی طرح ڈاکٹر عافیہ کو اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے اس اہم معاملے کو حل کریں۔

.
تازہ ترین