• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےحلف برداری کی تقریب کے بعد پہلے خطاب میںکہا کہ اسلامی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔امریکی نئے صدر نے یہ بات پہلی مرتبہ نہیں کہی وہ اس سے پہلے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد بار ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کی اس سوچ سے یہ بات عیاں ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کو ہی دہشت گرد سمجھتے ہیں جبکہ یہ درست نہیں۔ دنیا کو دہشت گردی کے حوالے سے دوبارہ ایک سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے اور یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ شدت پسندی اور انتہا پسندی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس میں روز بہ روز شدت پیدا کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کی اس سوچ سے میرے خیال میں شدت پسندی اور انتہا پسندی میں کمی کی بجائے اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ دہشت گردی ، شدت پسندی اور انتہا پسندی کی تعریف دوبارہ سے کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑنا انتہائی نا مناسب ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی موجودہ حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے اس کی پالیسیوں سے بھارت میں شدت پسندی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ بھارت میں جنونی انتہا پسند زور پکڑ رہے ہیں جبکہ وہاں چند ایسی تحریکیں اور مہمیں بھی چلائی جا رہی ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں جن میں گھر واپس لوٹ آئو اور جو ہندو نہیں اس کی ہندوستان میں گنجائش نہیں شامل ہیں۔ گھرواپس لوٹ آئو مہم کے تحت بھارت کی ایک انتہا پسند تنظیم دیگر مذاہب کے لوگوں کو زبردستی ہندو بنا رہی ہے جبکہ ایک اور تحریک جو ہندو نہیں اس کی ہندوستان میں گنجائش نہیں جس کے ذ ریعے دوسرے مذاہب اور اقلیتوں کو یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر آپ کو ہندوستان میں رہنا ہےتو ہندو بن کر رہنا پڑے گا ورنہ یہ ملک چھوڑ دو۔ یہ سب کے علم میں ہے کہ بمبئی جیسے بڑے شہر میں مسلمان فنکاروں کو نہ تو گھر خریدنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی کرائے پر گھر دینے کو تیار ہے ۔بھارتی مسلمان اداکارہ شبانہ اعظمی نے روتے ہوئے بتایا کہ ہمیں بمبئی میں کوئی گھر دینے کو تیار نہیں اس کے بارے میں امریکی صدر کیا کہیں گے؟
میں متعدد بار بھارت کا دورہ کر چکا ہوں اور بڑے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمان کا بچہ اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق نوکری سے محروم ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں داخلے اور کاروباری مواقع مسلمانوں کے لئے نہ ہونے کے برابر ہیں۔مسلمانوں کے بارے میں ہندو کمیونٹی کے تاثر کا ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ میں بھارت کے شہر دہلی میں ایک کھانے کی دعوت پر گیا وہاں پر موجود ایک 50 سالہ بزنس مین خاتون سے میری مختلف امور پر گفتگو ہو رہی تھی گفتگو کے دوران جب مسلمانوں کے بارے میں بات ہوئی تو اس نے باتوں باتوں میں یہ تاثر دیا کہ مسلمان کا مطلب ہندوستان میں انتہائی غیر اہم لوگ ہیں۔ وہ اسلام کو مذہب دین کی بجائے قومیت کے طور پر دیکھتی تھی اور یہی رجحان اور تاثر عمومی بھارتیوں میں پایا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں مسلمان ہونے کا مطلب انتہائی غیر اہم قومیت رکھنے والے افراد ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر جو گولیاں برسائی جا رہی ہیں اس کو کیا کہا جائے گا؟ افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نہتے شہریوں پر بمباری کر کے ان کو شہید کرتی ہیں کیا یہ دہشت گردی نہیں؟ کشمیر میں گزشتہ ایک دہائی سے جو خون کی ہولی کھیلی گئی اور جو نہتے شہریوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا اس کو ڈونلڈ ٹرمپ کیا کہیں گے؟اسرائیل میں جو نہتے فلسطینیوں کا آئے روز قتل عام کیا جا رہا ہے اس کو کون سی دہشت گردی کا نام دیا جائے گا؟شام کے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس کے بارے میں امریکی صدر کیا رائے رکھتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ دنیا کو دہشت گردی سے خطرہ ہے اگر اس کو کسی ایک مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا تو ایسا کرنے سے دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ امریکی صدر کے اس نظریے سے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔ امریکہ جو بلا شبہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں بسنے والے لوگ اور مذاہب میں خلیج بڑھانے کی بجائے ان کو قریب لانے کی سنجیدہ کوشش کرے۔ ایسا کرنا نا صرف دنیا بلکہ امریکہ کے مفاد میںبھی ہے۔ بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے اس سے نمٹنے کے لئے اقوام عالم کو مربوط اور سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آگ اس کے گھر تک نہیں پہنچے گی لہٰذا اس کو اس پیچیدہ اور اہم مسئلے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ آگ کبھی بھی اس کے گھر تک پہنچ سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دنیا میں ہر طرح کی نا انصافی ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے اور دہشت گردی کو کسی رنگ و نسل اور مذاہب سے جوڑنے کی بجائے اس کی اصل وجوہات کی نشاندہی کی جائے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں پڑھے لکھے اور مغربی معاشرے میں رہنے والے نوجوان کیوں کھیل رہے ہیں۔یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ مغربی تہذیب میں پڑھے لکھے نوجوان جو ق در جوق داعش میں شامل ہو رہے ہیں اور ایسی تنظیموں کے پیچھے وہ کون سے ہاتھ ہیں جو دنیا کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ غیر معمولی شخصیت کے مالک امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دہشت گردی جیسے انتہائی خطرناک اور سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے فرنٹ پر آ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔نئے امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ کو ہر قسم کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دنیا کواپنے ساتھ ملا کر کام کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے تمام مذاہب کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ان کے درمیان مکالمہ کروانے کی بھی اشد ضرورت ہے تا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے یکساں پالیسی مرتب کی جا سکے۔ اگر امریکی صدر نے دہشت گردی کو صرف اسلامی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے منسوب کر کے کوئی پالیسی مرتب کی تویہ نہ صرف دنیا بلکہ امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں ہو گا اور اقوامِ عالم مذہب، رنگ نسل اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہوتی جائے گی۔

.
تازہ ترین