اسلام آباد(آئی این پی،صباح نیوز)چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ریاست کے تحت لوگ غائب کردیئے جاتے ہیں، میرے سمیت کسی کو ریاست سے اس بارے میں سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی، کسی نے جرم کیا ہے تو عدالت میں مقدمہ چلایا جائے ، ریاست نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولا،تشدد کو فروغ دیا تاکہ اپنی اجارہ داری اور تسلط کو برقرار رکھ سکے، معاشرے کو اتنا خوفزدہ کردیا کہ ہم فیض احمد فیض،حبیب جالب اور پروین شاکر جیسے شاعروں اور ادیبوں کا متبادل نہ لاسکے،یہ انتہائی فکر کا مقام ہے،متبادل تو دور کی بات ہے انکے ہم پلہ لوگ پیدا کرنے نہ کرسکے، شاعروں اور ادیبوںسے کہنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ریاست کے سامنے اس سوال کو کرسکیں گے کہ لوگوں کو جبری طور پر کیوں اٹھایا جاتا ہے؟۔وہ اتوار کو اسلام آباد میں اردو شاعری میلہ2017میں بحیثیت صدر مجلس خطاب کررہے تھے ۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہاکہ گھٹن کے اس دور میں شعرا ادیب اور دانشور سوسائٹی کیلئے مشعل راہ ہیں،معاشرے کوزندہ رکھنے کی شمع کو اسی طبقے نے روشن کررکھاہے، شاعری اور کتاب کے اثرات ذہنوں پر مرتب ہوتے ہیں اور یہ خیالات کو زندہ رکھتے ہیں مگر آج مجھے فکر لاحق ہے کہ پروین شاکر جیسی بڑی شاعرہ کی اچانک موت کے بعد اس خلاء کو کیوں نہ پورا کیا جاسکا، میرا سارے معاشرے سے سوال ہے کہ ہم اس قسم کے شاعر اور ادیبوں کو جنم دینے میں کیوں نہ کامیاب ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ معاشرہ جہاں جارہا ہے جب اسے دیکھتا ہوں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ریاست کی پالیسیاں راستہ متعین کرتی ہیں اور ریاست نے ایسی پالیسی اختیارکی جس نے ادب دانش شاعری کے کلچر کو قتل کیا،کتابوں اور کتابیں پڑھنے کے کلچر کو ختم کیا کیونکہ ریاست کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے فکر تھی کہ اس ادب ثقافت اور دانش کے فروغ کے نتیجے میں نئی سوچ پیدا ہوگی جس میں برداشت پر مبنی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ریاست کو شاید یہ چیزیں قابل قبول نہیں تھیں اور اس نے ادب اور شاعری کا گلہ ہی گھونٹ دیا۔رضا ربانی نے کہاکہ پاکستان میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ریاست کے تحت لوگ غائب کردیئے جاتے ہیں اور میرے سمیت کسی کو ریاست سے یہ سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس پر عدالت میں لاکر مقدمہ چلایاجائے، پاکستان کے آئین قانون کے تحت جواب دہ بنایاجائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے لوگوں کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ ان معاملات پر ہلنے کو بھی تیار نہیں ہے اور یہ خوف اتنا طاری ہوچکا ہے کہ ہم اپنے سایوں سے بھی ڈرتے ہیں تاہم ان سب حالات کے باوجود معاشرے میں ابھی تک وہ احساس اور جذبہ باقی ہے وہ سوچ اور شعور رکھتے ہیں اور اسی حوصلہ افزاء ماحول کے تحت میں پاکستان کے تمام شاعروں اور ادیبو ں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ریاست کے سامنے اس سوال کو کرسکیں گے کہ لوگوں کو جبری طور پر کیوں اٹھایا جاتا ہے؟۔ تقریب میں شاعری کی بہترین کتابیں لکھنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔