• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسپین میں بہت سے ایسے واقعات رُونما ہوتے رہتے ہیں جو انسانی ذہنوں اور روح پر اپنا نقش دائم چھوڑ جاتے ہیں، اُن میں سے دو واقعات ایسے ہیں جنہوں نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ پہلا واقعہ تب پیش آیا جب میں ناسازی طبیعت کی وجہ سے بارسلونا کےاسپتال پہنچا،اسپینش زبان سے نا آشنائی کا ’’بھانڈا‘‘ اس لئے پھوٹنے سے بچ گیا کیونکہ میرا ڈاکٹر انگریزی زبان سمجھتا تھا،اسپینش لہجے میں جس طرح کی انگریزی ڈاکٹر بول رہا تھا بس اُسی طرح میں بھی پنجابی لہجے میں انگریزی زبان سے نبرد آزما ہو گیا۔ ڈاکٹر نے مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس درجنوں پاکستانی خواتین چیک اپ کے لئے آتی ہیں، کوئی خاتون ایسی نہیں ہوتی جس کا سیزرین (بڑا آپریشن) نہ کیا گیا ہو، ساتھ ہی سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا پاکستان کے ڈاکٹر شوقیہ طور پر نارمل ڈلیوری کی کوشش نہیں کرتے یا کہ وہ صرف آپریشن کرنے کا کام سیکھتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ڈاکٹر نے دوسرا نشتر نما سوال میرے منہ پر دے مارا، ڈاکٹر بولا سُنا ہے پاکستان میں دل کے والو (اسٹنٹ) اُن افراد کو ڈالے جا رہے ہیں جنہیں والوز کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور وہ ’’والوز‘‘ ہوتے بھی جعلی ہیں؟ ڈاکٹر کی پاکستان کے بارے میں معلومات اور تمسخرانہ لہجے میں کئے جانے والے سوالات نے مجھے لاجواب کر دیا، دوستوں کی محفل میں مجھے باتوں کا تیس مار خاں کہا جاتا ہے لیکن ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ ذہن میں لوڈ شیڈنگ ہوگئی ہے اور میں کسی تاریک اور بند گلی میں ہاتھ پیر مار رہا ہوں، خاموشی کو غنیمت جانا اور اپنی بیماری کا واویلا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر کن اکھیوں سے مجھے دیکھتا ہوا میرے پیٹ کو چیک کر رہا تھا، ڈاکٹر نے مزید کہا کہ شکر کرو کہ تمہارا پیٹ آپریشن سے بچ گیا، ورنہ جس طرح مریض نہ ہوتے ہوئے بھی انہیں جعلی ہارٹ والوز ڈالے جا رہے ہیں کہیں تمہارا بھی پیٹ چاک کر دیا گیا ہوتا، اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر نے میرا جواب نہ دینے کا ارادہ بھانپتے ہوئے دوائیاں لکھ دیں اور کہا کہ پابندی سے کھانا، میں اجازت لے کر چلتا بنا لیکن میرے دماغ میں سوالات کی آندھیاں چل رہی تھیں، شرمندگی کا طوفان تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اب ان سوالوں کے جوابات ہماری پاکستانی حکومت ضرور دے سکتی ہے کیونکہ حکومتی نمائندوں کو معلوم ہے کہ ایسا ’’بلنڈر‘‘ کرنے والے کون ہیں اور انہیں کیا سزا ملنی چاہئے۔ دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ مجھے بارسلونا میں ایک پاکستانی محمد انور ملا جو کہ ’’لالہ چک گجرات‘‘ کا رہنے والا ہے، 67سالہ محمد انور کو میں نے بیساکھیوں کے سہارے چلتا دیکھا تو اُن سے پوچھا، بابا جی آپ اتنی بیماری اور تکلیف کی حالت میں ہیں پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟ باقی زندگی کے دن وہاں اپنے بال بچوں میں گزاریں، بابا جی رو پڑے اور بولے، بیٹا میں پاکستان آرمی ائیر ڈیفنس سے ریٹائرڈ حوالدار ہوں، 1991میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد 2007تک پاکستان میں پنشن لیتا رہا، میرا ایک بیٹا یونان میں مقیم ہے اُس کے دونوں گردے ناکارہ ہو گئے،وہ موت کے بالکل قریب تھا، ڈاکٹرز نے میرے بیٹے سے کہا کہ تمہیں زندہ رہنے کے لئے ایک گردے کی ضرورت ہے، بیٹے نے مجھ سے بات کی کہ اُسے گردہ چاہئے، باپ تھا انکار نہ کر سکا، میں نے ہامی بھرلی اور بیٹے سے کہا کہ مجھے جلد از جلد یونان بلاؤ میں تمہیں اپنا گردہ دوں گا۔ بابا جی نے بتایا کہ میرا چچا زاد بھائی جائیداد کے حصول کے لئے اپنے سگے ماں باپ کو قتل کرکے فرارہوتے ہوئے مجھے میری ٹانگوں سے محروم کر گیا تھا۔ میرے بیٹے نے یونان کی حکومت سے اپیل کی کہ میرے باپ کو یونان بھیجیں تاکہ وہ مجھے اپنا گردہ عطیہ کر دے۔ یونان کی حکومت نے انسانی ہمدردی کے تحت مجھے ویزہ بھیجا، میں یونان آگیا، بیٹے کو ایک گردہ دیاجس سے اُس کی زندگی لوٹ آئی۔ میرا چالیس دن کا ویزہ لگا تھا لیکن یونان پہنچ کر چیک اپ کی وجہ سے میرا ویزہ تین ماہ کا کر دیا گیا۔ بیٹے کو گردہ دیکر میں شدید بیمار ہو گیا۔ یونان حکومت نے مجھے لمبا سفر کرنے سے منع کرتے ہوئے قانونی رہائش کے کاغذات دے دیئے اور میں یونان میں رہنے لگ گیا۔ گجرات کے بڑے ڈاکخانے سے میری بیوی میری پنشن وصول کرتی رہی۔ جس کے لئے میں نے یونان میں سفارت خانہ پاکستان سے بیوی کے نام پنشن لینے کا اجازت نامہ تصدیق کروا کر بھیجا تھا۔ بیٹا اور میںمسلسل بیمار، پاکستان میںمیری پنشن ہی میرا واحد سہارا تھی۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے کچھ جاننے والوں نے مجھے اسپین بلا لیا تاکہ میرا اچھا علاج ہو سکے، اس لئے آج کل میں اسپین میں مقیم ہوں۔ بابا جی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ گجرات ڈاکخانے کے پوسٹ ماسٹر نے میری پنشن بند کر دی ہے۔ میں نے کثیر تعداد میں درخواستیں دیں، او پی ایف (اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن) کے ذریعے دی جانے والی درخواست کے جواب میں مجھے کہا گیا کہ آپ این او سی لے کر نہیں گئے اس لئے آپ کی پنشن بند کی گئی ہے، جبکہ چار سال یونان اورا سپین میں رہتے ہوئے بغیر این او سی کے میری بیوی کو پنشن ملتی رہی ہے۔ وزیراعظم کو پنشن کی درخواست دی تو میرے زندہ ہونے کا ثبوت مانگا گیا جو سفارت خانہ پاکستان ایتھنز میں پیش ہوکر ارسال کر دیا۔ پھر 13جولائی 2016کو میجر محمد فہیم اللہ خان کے دستخطوں سے ڈاکخانے کو این او سی جاری کر دیا گیا۔ اس کے باوجود پوسٹ ماسٹر گجرات کہتے ہیں کہ خود پاکستان آؤں اور آکر پنشن وصول کروں۔ میرا چچا زاد بھائی ابھی مفرور اور اشتہاری ہے وہ جائیداد کے لئے مجھے قتل کرنا چاہتا ہے، یہاں کے ڈاکٹرز سفر کی اجازت نہیں دیتے، ایسے حالات میں پاکستان کس طرح جاسکتا ہوں؟ بابا جی رو رہے تھے اور میں اپنی آنکھوں میں جھلملاتے جگنو لے کر آگے چل پڑا، اس دُعا کے ساتھ کہ پوسٹ ماسٹر گجرات کو بابا جی پر رحم آجائے۔ کیونکہ یونان اور اسپین کی غیر مسلم حکومت نے بابا جی اور اُن کے بیٹے پر بہت رحم کیا ہے۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خُدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر



.
تازہ ترین