• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’یہ لوگ درد سے عاری …بغیر جسم کے لوگ…آپ کو زیر زمین دبا آئے…مجھے زمیں پہ چلنا عجیب لگتا ہے ‘‘
وہ حبیب جالبؔ نہیں تھے ، جس نے نعرئہ مستانہ بلند کیا:
ایسے دستور کو ، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
وہ فیض ؔ بھی نہیں تھے ، جس نے للکارا:
ہم نے ان پہ کیا حرفِ سنگ زنی
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی ہے
وہ جسٹس آر ایم کیانی جیسے جرأت مند اور بڑے منصب دار بھی نہیں تھے ۔ وہ تو بس ایک معمولی سرکاری اہلکار تھے ۔انہوں نے تو فقط کھلی کچہری کے جلسہ عام میں ، ہزاروں لوگوں کے رو برو ، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کے سامنے ، ملکی و غیر ملکی صحافیوں کی موجودگی میں ،مائیک پر آ کر ،گرجدار آواز میں یہ کہا تھا ، جو آج بھی سرکاری ریکارڈ پر ہے ، جس کے درجنوں چشم دید گواہ ابھی زندہ ہیں کہ …’’میں شاہ نواز خان پٹواری حلقہ خانپور چھوٹا چور ہوں اور اس ملک کا صدر ایوب خان بڑا چور ہے ‘‘ … 1963ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی کرپشن کش انسپکشن ٹیم نے خانپور (چکوال) میں کھلی کچہری لگائی جہاں پٹواریوں کے خلاف عوامی شکایات پر بریگیڈیئرمظفر نے انہیں بد ترین چور قرار دیتے ہوئے پٹواریوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔ تب ایک نوجوان کھڑا ہوا اور بحیثیت پٹواری خانپور اپنا تعارف کراتے ہوئے کرپشن کے خلاف اپنی ایک شکایت پیش کرنے کی اجازت چاہی ۔ ’’کس کے خلاف ؟ ‘‘ …’’صدر مملکت کے خلاف ‘‘…زمین دہل گئی ۔ جس کے مطلق العنان اقتدارکا سورج نصف النہار پر ہے ، کیا وہ کرپٹ ہے ـ؟ کہا ’’ ہاں ! وہ بارہ مرتبہ یہاں شکار کیلئے آئے ہیں مگر شکار کے انتظامات اور کھانے کا بل نہیں دیتے ، میں رئیس زادہ نہیں کہ اتنے اخراجات اپنی جیب سے ادا کر سکوں ، لوگوں سے لیتا ہوں اور صدر کو کھلاتا ہوں، یہی اس ملک کے قانون کا اصل چہرہ ہے ‘‘۔ انہیں حبیب جالبؔ جیسی عوامی پذیرائی حاصل نہیں تھی ، البتہ ابو الاعلیٰ مولانا مودودی نے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبدالکریم کنڈی ( تب سول جج چکوال تھے ) نے ان سے کہا کہ میری عدالت میں صدر کے خلاف خرچے کا دعویٰ دائر کر دو۔ میں ڈگری کر دوں گا، پھر مل کر بھگتیں گے ۔
وہ حب الوطنی کا شعلہ زن پیکر نہیں تھے ۔ وہ مسلمانوں کی اسلام سے دوری پر دل گرفتہ بھی نہیں تھے ۔ انہیں معاشرے کو سدھارنے کا جنوںبھی نہیں تھا ۔ انہوں نے ملک کو دیمک کی طرح چاٹتی کرپشن پر کبھی بے مغز گفتگو بھی نہیں کی تھی ۔ البتہ اپنی چالیس سالہ سروس کے دوران وہ ہزاروں مرتبہ بے کسوں ، بیوائوں ،یتیموں اور سرکاری جائیداد پر ناجائز قابضین اور اپنے کرپٹ افسران کی منافقت کے سامنے تن تنہا ،تن کر کھڑے ہو گئے ۔ بہت پہلے جب وہ کلرکہار میں پٹواری تعینات تھے تو ڈپٹی کمشنر ضلع فیملی اور دوستوں کے 9رکنی وفد کے ہمراہ ذاتی دورے پر وہاں آئے تھے ۔ ریسٹ ہائوس پہنچتے ہی انہوں نے ڈنر کیلئے مینو اور جملہ ضروریات اور لوازمات کی لسٹ پٹواری کے حوالے کی ۔ ہر ممبر کیلئے سالم روسٹ دیسی مرغ ، دو بکروں کی بھنی ہوئی کلیجی ،بریانی، تاش کے دو پیکٹ اور بہت کچھ ۔صبح ناشتے اور لنچ کے مینو کی لسٹ بھی اسی وقت عنایت کردی گئی ۔ پٹواری نے شرفائے دیہہ کے دروازے کھٹکھٹا کر بھاری بھرکم پیٹوں کے یہ جہنم بھرے۔ دوسرے دن لنچ کے بعد پولیس کے جلو میں تزک و احتشام سے یہ قافلہ واپس روانگی کیلئے گاڑیوں میں بیٹھنے لگا تو ڈپٹی کمشنر نے چونک کر کہا کہ ٹھہرو میں نماز پڑھ لوں ، ورنہ ظہر کا وقت نکل جائے گا۔ عجلت میں پوچھا کہ قبلہ کس طرف ہے ؟ پٹواری نے بے ساختہ کہا ’’ کچن کی طرف ‘‘ صاحب بہادر بپھر گئے ’’ بد تمیز پٹواری ! میں تمہارا طنز سمجھ گیا ہوں ،تمہیں سیدھا کردیا جائے گا‘‘ اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر افسران نے بھی اس گستاخی پر انہیں مطعون کیا ۔ جب لعن طعن حد سے بڑھی اورمعذرت سے بھی بات نہ بنی تو دفعتاً پٹواری نے پینترا بدلا اوربا رعب لہجے میں ڈپٹی کمشنر سے یہ کہا ’’صاحب! کل سے حرام کھا رہے ہو ، اب جاتے ہوئے خدا کو دھوکہ دینے لگے ہو یا خود کو ؟ ‘‘ ۔وہ کوئی عہد ساز شخصیت نہیں تھے مگر اپنے بچوں کیلئے ہر قدم پر باوقار زندگی کی راہیں متعین کرتے گئے ۔ وہ قانونگو تعینات تھے تو ایک مقامی بر سرِ اقتدار سیاستدان نے ووٹ نہ دینے کی پاداش میں انہیں نشانے پر رکھ لیا۔ آئے روز تبادلے ، انکوائریاں اور جھوٹے پرچے ۔ایک دفعہ ایک جعلی مقدمے میں حوالات میں تھے ، میں اپنے ایک کزن کے ہمراہ پریشانی کے عالم میں انہیں ملنے گیا ۔ وہ لان میں ٹہل رہے تھے ۔ ہمیں دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گئے اور سختی سے کہا کہ کوئی قیامت نہیں آ گئی ، پہلے گھر جا کر شیو کرو اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آئو۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ’’ وہ ‘‘ کہتے ہیں کہ ہمارے ڈیرے پر آ کر میں ان کی طرف سے معافی مانگ لوں تو ضمانت ہو سکتی ہے ۔ بولے ’’ ہر گز نہیں ،نوکری حکومت نے دی ہے اور رزق خدا کے ہاتھ میں ہے ، تم معافی مانگنے کی بجائے ان کے خلاف ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کردو‘‘ ایک دفعہ ایک تقریب میں وہ رہنما اتفاقاً ان کے سامنے آ گئے اور مصافحے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ میرے والد نے سگریٹ دائیںہاتھ میں پکڑ لیا اور عرض کیا ’’سر! میں ایک معمولی سرکاری ملازم ہوں اور آپ وفاقی وزیر ۔ ہمارا کوئی جوڑ نہیں ۔ جب ہم ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تو پھر سلام دعا کی منافقت بھی کیا کرنی ؟ ‘‘
وہ نمازی اور روزہ دار ہونے کے باوجود پارسائی کے دعویدار نہیں تھے ، البتہ انہیں کربلا والوں سے بے پناہ محبت تھی ، اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی زیادہ ۔ انہوں نے تو اپنا کفن بھی کربلا سے منگوایا تھا ۔ یہ محبت گفتار تک محدود نہ تھی ، ان کے کردار سے بھی جھلکتی تھی ۔ انہوں نے بیاسی سال کی عمر تک بے شمار مرتبہ کلمہ حق بلند کیا۔ اس خیرالعمل سے قبل وہ کسی جابر کا قد کاٹھ ماپنے کے قائل نہ تھے ۔ دو چیزیں ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں ، ایک تسبیح اور دوسرا ان کا پسٹل ۔ آخری وقت بھی یہ دونوں چیزیں ان کے پاس تھیں ۔ وہ ایک با رعب ،نفیس المزاج ،با ذوق ، کثیرالمطالعہ ،کم خوراک ، خوش لباس ، خوش نویس ، خود اعتماد اورخود دار شخصیت کے مالک تھے ۔انہوں نے ایک سفید پوش زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولی اور سفید پوش گھرانے ہی میں آنکھ بند کی ۔ جس دن وہ ریٹائر ہوئے ، انکے پاس محدود سی جدی بارانی زمین ، محکمے کی طرف سے ریٹائرمنٹ پر ملنے والے واجبات اور اطمینان کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ منٹو نہیں تھے مگر آخری وقت تک موت سے برسرِ پیکار رہے ۔انہیں مریض کہلانے یا کسی کی طرف سے اٹھنے بیٹھنے کیلئے مدد حاصل کرنے سے سخت نفرت تھی ۔آخر ی لمحوں میں جب ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔
وہ بڑے سے تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز ہر بات کا بقائمی ہوش و حواس باوقار انداز میں جواب دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔ آخری چند منٹوں میں ان کی بہن نے ان کا ڈھلکا ہوا تکیہ سیدھا کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کاہاتھ جھٹک کر خود تکیہ ٹھیک کیا۔ دوسری بہن نے ان کے ماتھے کا پسینہ صاف کرنا چاہا تو انہوں نے اس کے ہاتھ سے رومال لے کر خود پسینہ صاف کیا۔انہوں نے ظاہر ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ جا رہے ہیں اور پھر خاموش ہوکر آرام سے آنکھیں موند لیں۔انہوں نے مرتے وقت بھی اپنی روایتی خوش لباسی اور نفاست کا خیال رکھااور بسترِ مرگ پر بھی کاٹن کے کلف زدہ بے داغ سوٹ میں با وقار انداز میں جان جان آفریں کے سپرد کی ۔ وہ سات جنوری کو زینہ ہستی سے اتر گئے مگر ہمارے دلوں سے کبھی نہیں اتریں گے ۔ جب تک دنیا میں ضمیر نامی کوئی شے موجود ہے ، میرے والد چوہدری شاہ نواز خان جیسے لوگ زندہ رہیں گے کہ :
تم ہو اِک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائو گے
تازہ ترین