• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈان لیکس کو تو چھوڑیں، یہاں اور کیا ہے جو لیک نہیں کر رہا ۔باریک بخیہ لگانے والوں نے ہر شے کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی اور حشر نشر کرکے رکھ دیا ۔وزیر خزانہ کی مضمون نگاریاں اور میڈان جاتی امرا خوشخبریاں ایک طرف تو دوسری طرف چین کے سرکاری میڈیا کی خبر بلکہ یہ تجویز کہ چینی قیادت اس امر کو یقینی بنائے کہ پاکستان کو مالیاتی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے تاکہ اقتصادی راہداری روڈ و بیلٹ کے پائلٹ پراجیکٹ پر بلا روک ٹوک عملدرآمد ہو سکے ۔چینی سرکاری میڈیا ’’گلوبل ٹائمز ‘‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کے خسارے کا مسئلہ اخراجات پر قابو پانے اور آمدن پیدا کرنے میں حکومت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔چین کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری کا تحفظ کرے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ اس کے قرضوں سے نمٹ سکتا ہے ۔چین نے پاکستان کے اندر جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے ان کی اکثریت 51بلین ڈالر سی پیک کا حصہ ہیں ۔چین اور پاکستان کو چاہئے کہ وہ سی پیک منصوبہ پر موثر عملدرآمد کریں ۔ نااہلی اور کرپشن سے منصوبے کو نقصان پہنچنے سے بچائیں ‘‘چند روز قبل اک معتبر بین الاقوامی فورم سے یہ آواز اٹھی تھی کہ پاکستان کا مستقبل کرپشن پر کنٹرول کے ساتھ مشروط ہے ۔ادھر پبلک اکائونٹس کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ نواز حکومت کے پہلے سال میں انکم ٹیکس کی مد میں 121ارب روپے کی چوری ہوئی جبکہ نجی پاور کمپنیوں نے 6ارب 35کروڑ کا ٹیکس جمع کرانے سے انکار کر دیا ہے ۔مختصراً یہ کہ پاکستان کی معیشت اس موم بتی کی مانند ہے جسے دونوں طرف سے جلایا جا رہا ہے ۔ایک سرے پر کرپشن اور موم بتی کے دوسرے پر نااہلی کی آگ اور راگ یہ الاپا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت ہرن کی طرح قلانچیں بھر رہی ہے ۔اخبارات اور ماہرین اقتصادیات کے تبصرے تجزیے تو کسی تعصب پر مبنی ہو سکتے ہیں، عام آدمی حقائق جاننا چاہے تو اس کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ خود اپنے آپ سے پوچھے کہ وہ گزشتہ 2،4،6سال پہلے زیادہ آسودہ تھا یا آج زیادہ پرسکون ہے۔عام آدمی کے ’’چولہے‘‘ سے بڑا ماہر اقتصادیات کوئی نہیں ۔کہیں تنخواہیں تو کہیں پنشنیں رکی ہوئی ہیں ۔نااہلی اور کرپشن کااب بھی خاطر خواہ بندوبست نہ ہوا تو بات بہت دور تک بھی جا سکتی ہے ۔نپولین نے کہا تھا فوجیں پیٹ کے بل چلتی ہیں ۔پاک آرمی حالت جنگ میں ہے اور جنگ زندگی اور زر دونوں اعتبار سے مہنگا ترین کام ہے اور بیشتر سیاسی بھونپوئوں کو تو شاید اس بات کی سن گن بھی نہیں کہ ہمارے پاس کتنے ملین فوجی پنشنرز ہیں ۔یہی وہ کوتاہ قد اور کوتاہ اندیش ہیں جنہوں نے ریاستی ادارے وہاں پہنچا دیئے کہ آج سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’عدالت سے کوئی تعاون کر رہا ہے نہ معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔ ریاستی ادارے کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کرنا، جو کرنا ہے کرلو۔جسٹس عظمت سعید شیخ کہتے ہیں ’’نیب ہمارے سامنے انتقال کر گیا۔حدیبیہ پیپرز کیس 6فٹ گہری زمین میں دفن ہو گیا‘‘کوئی بات نہیں، وہ مسبب الاسباب ہے ۔نجانے کب وہ کوہکن اور کان کن سامنے آ جائے جو 6000فٹ گہرائی سے بھی سچائی کا سونا کھود نکالے ۔جوئے شیر لانا واقعی بہت کٹھن کام ہے لیکن کوئی سرپھرا فرہاد پھائوڑے، تیشے لیکر نکل آئے تو پہاڑ بھی توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں ، یہ تو صرف چند عشروں پر مشتمل ایک سیاسی جگاڑ اور بگاڑ ہے ۔یوں تو فیض صاحب بھی فرماتے تھے ’’ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ اور یہ کہ ’’جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔بابا ظہیر کاشمیری کو بھی یقین تھا کہ ان کے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے لیکن معاملات ویسے ہی چلتے رہے بلکہ بد سے بدتر ہو گئے لیکن اللہ ای جانے کیوں مجھے یقین نہ سہی ہلکی سی امید ضرور ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان پسماندگی ، پژمردگی اور پسپائی کو پس پشت پھینک کر آگے نکل آئے گا اور غالباً وجہ اس امید کی یہ ہے کہ پنجابی والی ’’اخیر‘‘ ہو گئی ہے، ات کی انتہا ہو چکی اور سیانے کہا کرتے تھے کہ ’’ات خدا دا ویر‘‘ہوتا ہے۔میرا خیال ہے یہ نوبت آ چکی غلاظت کے کیڑوں کے پر نکل آئے اور وہ خود کو سرخاب سمجھنے لگے۔مردار خور گدھ اقبال کے شاہینوں جیسے پوز بنانے لگے، بونے اونٹوں کی کمر پر گدگدیاں کر رہے ہیں، چور مال مسروقہ سامنے رکھ کر امامت پر مصر ہیں ۔ گندی نالیاں دریائے نیل سے چھیڑ چھاڑ پر آمادہ، بوز نے جنگل میں بادشاہت کے اعلان کر رہے ہیں ، بلاویاں ستی ساوتریاں کہلانے پر بضد، روڑی کے ڈھیر اہرام مصر ہونے کی اداکاری کر رہے ہیں، چونے کا پانی کہتا ہے میں تو اونٹنی کا خالص دودھ ہوں۔انصاف کو دھمکی ایسے ہی ہے جیسے ناخلف اولاد ماں باپ کو دھمکی دے کہ ہماری نہ مانی تو مزہ چکھا دینگے لیکن اس بار ایسا ہوا تو انجام عبرت ناک ہو گا کہ پسماندگی، پژمردگی اور پسپائی پاکستانیوں کا مستقل مقدر نہیں ۔’’تفصیلی فیصلہ دیں گے ایسا جسے 20سال بعد بھی لوگ کہیں انصاف پر مبنی تھا، کروڑوں خوش ہوں یا ناراض غرض نہیں ۔جس نے شور مچانا ہے مچائے۔ قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے ‘‘چشم ماروشن دل ماشاد

.
تازہ ترین