• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی سیاست میں کئی سرپرائز آنے والے ہیں۔ ہر سرپرائز کے پیچھے بھی بہت سے سرپرائز قطار میں کھڑے ہیں جو ایک کے بعد ایک سامنے آتے چلے جائیں گے اور یہ سلسلہ اگلے عام انتخابات تک جاری رہے گا۔ اگلے انتخابات میں آصف علی زرداری لاہور سے قومی اسمبلی کا امیدوار بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنے اس فیصلے کا اعلان کب کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی کے لئے بہت بھاری سمجھنے والے کچھ اپنے ہی دوست انہیں لاہور سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا مشورہ دیں کیونکہ یہ سرپرائز کم اور ایڈونچر زیادہ سمجھا جائے گا لیکن زرداری صاحب اس ایڈونچر پر تُلے بیٹھے ہیں بلکہ انہوں نے لاہور میں قومی اسمبلی کا وہ حلقہ بھی ڈھونڈ رکھا ہے جہاں سے وہ امیدوار بننا چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب اس سیاسی ایڈونچر پر اپنا وقت، توانائی اور پیسہ خرچ کرنے کا رسک کیوں لینا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کچھ ذکر اس انٹرویو کا ہو جائے جو آصف علی زرداری نے پچھلے ہفتے مجھے جیو نیوز کے لئے دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراء کے لئے جو دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا اس کو رعونت اور تکبر سے تعبیر کیا گیا لیکن جیالے بہت خوش تھے۔ زرداری نے غیروں سے زیادہ اپنوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی مفاہمت کی پالیسی ختم ہو چکی۔ جمعہ کی شام لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی بیٹی منیزے کی بارات تھی۔ لاہور والوں کی بیٹی پشاور والوں کی بہو بن گئی۔ شادی کی اس تقریب میں پاکستان کے ہر علاقے، ہر قومیت اور ہر زبان بولنے والوں کے نمائندے عاصمہ جہانگیر کو مبارکباد دینے آئے تھے اور اس تقریب میں ہر دوسرا شخص مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ آپ نے آصف زرداری کے ساتھ اپنا انٹرویو جہاں ختم کیا اس کے آگے کی کہانی کیا تھی؟
بات دراصل یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر پرائم ٹائم کے شو میں ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ سینتیس یا اڑتیس منٹ ہوتے ہیں۔ باقی وقت میں اشتہارات نشر ہوتے ہیں۔ اس محدود وقت میں کسی اہم شخصیت سے تمام اہم سوالات پوچھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ زرداری صاحب نے میرے ایک سوال کے جواب میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر تابڑ توڑ حملے شروع کئے اور 2008ء میں میرے ساتھ ہونے والی کچھ آف دی ریکارڈ گرما گرم بحثوں کا ذکر شروع کیا تو پروگرام کا وقت ختم ہو رہا تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ جو کہہ رہے تھے درست کہہ رہے تھے۔ میرے پاس جوابی سوال نہیں تھا اس لئے مجھے انٹرویو ختم کرنا پڑا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 27؍ دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو میں جنرل پرویز مشرف کی پابندی کا شکار تھا۔ پابندی کی وجہ وکلا تحریک کی حمایت تھی۔ وکلاء مشرف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے اور انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے تھے۔ اعتزاز احسن نے اپنی پارٹی کی بجائے وکلا کے فیصلے کی پابندی کی اور الیکشن کے لئے کاغذات جمع نہ کرائے۔ نواز شریف اور عمران خان بھی بائیکاٹ کے فیصلے کی حمایت کر رہے تھے۔ اس دوران آصف زرداری نے نواز شریف کو الیکشن میں حصہ لینے پر راضی کر لیا۔ نواز شریف نے الیکشن کے لئے ہاں کر دی تو عمران خان کو ایک جھٹکا لگا کیونکہ انہیں اعتماد میں نہ لیا گیا۔ 2008ء کے انتخابات ہوئے تو مجھ پر پابندی برقرار تھی۔ انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم بنتے ہی معزول ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا لیکن بحالی کا اعلان نہ کیا۔ میں روزانہ زرداری صاحب کے پاس پہنچ جاتا اور ان سے لڑتا کہ آپ معزول ججوں کو بحال کیوں نہیں کرتے؟ وہ مجھے کہتے کہ افتخار چوہدری جج نہیں سیاست دان ہے اس نے جسٹس پارٹی بنانی ہے تم اس کی وکالت نہ کرو۔ میں بڑے جذباتی انداز میں انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے الفاظ یاد دلاتا جو انہوں نے اسلام آباد کی ججز کالونی میں ادا کئے تھے کہ میں اس چیف جسٹس کو بحال کرائوں گی۔ زرداری صاحب کچھ مجبوریاں بیان کرتے۔ میں پوچھتا اگر معزول ججوں کو بحال نہیں کرنا تھا تو پھر آپ نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تحریری وعدہ کیوں کیا تھا؟ وہ اس تحریری وعدے کی ذمہ داری اعتزاز احسن اور مجھ پر ڈال دیتے۔ انہیں یقین تھا کہ اگر افتخار محمد چوہدری کو بحال کر دیا گیا تو وہ نواز شریف کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کو مفلوج کر دیں گے۔ ہماری لڑائیاں چلتی رہیں۔ اس دوران مجھ پر پابندی ختم ہو گئی۔ میں نے ٹی وی اسکرین پر واپس آتے ہی معزول ججوں کی بحالی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میرا موقف یہ تھا کہ مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا افتخار محمد چوہدری نے ایک دفعہ پی سی او کے تحت حلف لیا ایک بڑا مجرم دوسرا چھوٹا مجرم ہے۔ زرداری صاحب دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں تعلقات اتنے بگڑے کہ پنجاب میں گورنر راج نافذ ہو گیا۔ جس دن نواز شریف معزول ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کرنے والے تھے اس دن آصف زرداری نے مجھے ایوان صدر بلایا اور کہا کہ افتخار محمد چوہدری کو بحال کر دیا جائے گا لیکن یاد رکھنا وہ نواز شریف کے ساتھ مل کر میرے خلاف سازش کرے گا اور ایک دن جسٹس پارٹی بنائے گا اور تمہیں شرمندگی اٹھانی پڑے گی کیونکہ تم صرف آئین و قانون کی بالادستی کے چکر میں پڑے ہوئے ہو۔ پھر وہی ہوا جو زرداری صاحب نے کہا تھا۔ افتخار محمد چوہدری نے جسٹس پارٹی بنا کر صدارتی نظام کا نعرہ لگا دیا اور ہماری بے لوث جدوجہد کو زرداری صاحب کا طعنہ بنا دیا لیکن مجھے کوئی پشیمانی نہیں کیونکہ ہم کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ ایک اصول کے ساتھ کھڑے تھے۔
آج زرداری صاحب بہت سوچ سمجھ کر مسلم لیگ (ن) اور افتخار محمد چوہدری کو للکار رہے ہیں۔ وہ اپنی بھینسوں، بکریوں اور مرغیوں سمیت لاہور میں ڈیرہ لگا چکے ہیں۔ اب وہ اکثر شریف برادران کو للکارا کریں گے اور کہیں گے کہ جائو میرے سوئس اکائونٹس ڈھونڈ کر لائو اور میرا پیٹ پھاڑ کر وہ لوٹی ہوئی رقم نکالو جس کا ذکر تم اپنی تقریروں میں کرتے تھے۔ زرداری صاحب بہت سوچ سمجھ کر شریف برادران کو اشتعال دلا رہے ہیں تاکہ انہیں گرفتار کر لیا جائے ذرا سوچئے! زرداری جیل چلے جائیں تو بلاول اپنی بہنوں کے پہلو میں کھڑے ہو کر کیسی کیسی شعلہ نوائی کریں گے۔ زرداری گرفتار نہ بھی ہوئے تو لاہور میں اپنے سیاسی ایڈونچر کے ذریعے یہ تو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں زندہ ہے اور بدستور پاکستان کی زنجیر ہے۔ اس سارے ایڈونچر کا مقصد یہ ہو گا تمام سیاسی الزامات اور گالیوں کا ٹارگٹ زرداری بن جائیں گے اور بلاول آرام سے انتخابی مہم چلائیں گے اور ببانگ دہل کہیں گے کہ میرا باپ لاہور سے الیکشن لڑ رہا ہے نواز شریف میں ہمت ہے تو لاڑکانہ سے الیکشن لڑ کر دکھائے۔

.
تازہ ترین