اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار)سال رواں کو دہشت گردی کے مکمل سدباب اور خاتمے کا سال قرار دیا گیا ہے اس کی بنیاد وہ کامیابیاں ہیں جو آپریشن ضرب عضب میں ہمارے سلامتی کے اداروں نے اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے حاصل کی ہیں ۔ جنوری کے مہینے میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اچانک تیزی آئی اور ان میں متعدد افراد لقمہ اجل بن گئے اور ان افراد کی تعداد کہیں زیادہ تھی جو ان قابل مذمت وا قعات میں زخمی ہوئے بعض زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ بدھ کو چارسدہ میں دہشت گردوں نے ایسی جامعہ کو اپنا ہدف بنایا جو تحریک آزادی کے ایسے رہنما کے نام پر بنائی گئی تھی جس نے قیام پاکستان کی تحریک کا ساتھ تو نہیں دیا تھا تاہم وہ ہند کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے ہراول دستے میں شامل تھا اس نے پوری زندگی عدم تشدد کا پرچار کیا خان عبدالغفار خان جنہیں انکے پیروکار باچا خان کے نام سے یاد کرتے ہیں ان سے منسوب باچا خان یونیورسٹی کو کم وبیش اسی انداز میں نشانہ بنایا گیا جیسے تیرہ ماہ قبل آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم طلبا پر حملہ کیا گیا تھا اور اس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پھولوں جیسے بچے موت کی وادی میں اتار دیئے گئے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ آور ہونے والے ظالموں کا ارادہ اتنے بڑے یا اس سے زیادہ نقصان پہنچانے کا تھا علم اور روشنی کے یہ دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب تو نہ ہوسکے لیکن چودہ نوجوان اور باصلاحیت طلبا اورایک قابل استاد سمیت اکیس افراد کو زندگی سے محروم کرگئے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں آئی اس اچانک تیزی کو بعض مبصرین پٹھان کوٹ کے بھارتی ہوائی اڈے پرحملے کا ردعمل قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ دہشت گرد اس چراغ کی مانند ہیں جو بھجنے سے پہلے ایک مرتبہ ضرور بھڑکتا ہے۔ حملہ ابھی جاری تھا کہ بعض مسترد شدہ سیاسی افراد کے بیانات آنا شروع ہوگئے کوئی اسے حکومت کی ناکامی سے تعبیر کررہا تھا تو کوئی اسے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کوتاہی کا شاخسانہ قرار دے رہا تھا یہ لوگ دہشت گردوں کی بجائے حکومت کے درپے تھے اور اسے اپنا نشانہ بنانے پر تلے تھے۔ کچھ اسی طرح کا ماحول پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں تھا جہاں اس دلخراش حملے کی روداد بحث و تمحیص اور کارروائی پر چھائی رہی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق جو واضح طور پربہت دل گرفتہ تھے انہوں نے ارکان کو اس صورتحال کےبارے میں کھل کر رائے زنی کا موقع دیا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فاضل ارکان معروضی صورتحال کا بے لاگ جائزہ لیتے اور پھر اپنی تجاویز پیش کرتے کہ حکومت کیونکر اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے و الے ارکان اپنے اپنے سیاسی زاویئے سے اس تکلیف دہ صورتحال پر تبصرہ آرائی کرنے میں مصروف تھے وہ اس دوران ایسی بھی گفتگو کرگئے جس کا زیربحث صورتحال سے چنداں کوئی تعلق نہیں بنتا تھا ہرچند وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایوان کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان اقدامات پر روشنی ڈالی جو دہشت گردی کی اس واردات کے ذمہ دار افراد کا قلع قمع کرنے کے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئے ہیں انہوں نے ایوان کو مطلع کیا کہ پاکستان کی بری فوج کے سرعت جواب دینے والے دستوں نے سب سے پہلے کارروائی کا ڈول ڈالا اور دہشت گردوں کی گردن پر ہاتھ ڈالا جن کی ابتدائی مزاحمت جامعہ کے محافظین نے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آج نسبتاً پہلے سے زیادہ محفوظ ملک بن چکا ہے اسی طرح اطلاعات ونشریات کے وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید نے ا یوان میں اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت کے مطابق دو وزراء جنرل عبدالقادر بلوچ اور انجینئر محمد بلیغ الرحمٰن کے ہمر اہ متاثرہ جامعہ کادورہ کرنے کے لئے رو انہ ہورہے ہیں۔