اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبیؐ کی امت پر رحم فرمائے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے جس امت کو دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دینے کا پیغام دیا تھا وہ امت عشق محمدؐ کی قوت سے متحد ہو کر ہر پست کوبالا کرنے کی بجائے جگہ جگہ ایک دوسرے کا خون بہا رہی ہے اور معصوموں کی لاشیں اٹھا رہی ہے۔ ہم لاکھ کہیں کہ مسجدوں، امام بارگاہوں اور تعلیمی اداروں پر حملے کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے لیکن ہم کب تک اپنے آپ کو فریب دیں گے؟ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کے الزام میں جن افراد کو پھانسیاں دی گئیں ان میں کوئی ایک بھی غیر مسلم نہ تھا سب مسلمان تھے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے قبائلی علاقوں میں کارروائیوں کے دوران ہزاروں عسکریت پسندوں کوختم کیا۔ یہ سب بھی مسلمان تھے۔ ہمارے ارباب اختیار بار بار دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب امریکی صدر اوباما اپنی تقریر میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کے کچھ حصوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک بدامنی جاری رہے گی تو ہمارے ارباب اختیار برا مناتے ہیں۔ پھر اگلے ہی دن پاکستان میں کہیں نہ کہیں خودکش حملہ ہوتا ہے تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ پاکستان کے بارے میں اپنوں کے دعوے بار بار غلط اور غیروں کے دعوے سچے کیوں ثابت ہورہے ہیں بلکہ ہم اس بدامنی کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو بتایا گیا کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔ اس حملے کے الزام میں جو لوگ پکڑے گئے وہ پاکستانی نکلے۔ اب چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی افغانستان اور ہندوستان میں تلاش کیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ماسر مائنڈ واقعی کوئی ہندوستانی ہو لیکن کیا یہ پوچھنا صحیح نہیں کہ ہندوستان میں اکثر بڑے حملوں کا الزام پاکستانیوں پر کیوں لگایا جاتا ہے، پچھلے کئی سالوں میں وہاں صرف پاکستانی گرفتار کیوں ہوئے اور اس عرصے میں پاکستان کے اندر حملوں کے الزام میں پکڑے جانے والے اکثر ملزمان پاکستانی کیوں تھے؟ دشمن کو پاکستانیوں پر حملوں کیلئے اتنی آسانی سے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کیوں مل جاتے ہیں؟
کہیں ہم نے خود ہی پاکستان کے اندر پاکستان کے دشمن پیدا کرنے کی فیکٹریاں تو نہیں لگا رکھیں؟ عجب رسوائی ہے۔ ہم جن معصوموں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں وہ بھی پاکستانی اور جن دہشت گردوں کو پھانسیاں دے رہے ہیں وہ بھی پاکستانی اور ستم بالائے ستم یہ کہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ہماری خارجی و داخلی پالیسی میں بہت بڑا نقص موجود ہے لیکن ہم نے اس نقص کی نشاندہی اور اسے دور کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ سچ بولنے اور لکھنے والوں کو غداری کے الزامات کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ جو یہ کہہ دے کہ کافر کی شمشیر پر بھروسہ کر کے بے تیغ مومنوں سے لڑائی کی پالیسی نے پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دیا وہ دہشت گردوں کا ساتھی کہلاتا ہے اور جو خودکش حملوں کو خلاف اسلام قرار دے وہ کفار کا ایجنٹ کہلاتا ہے۔ ہمارے ہاں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر غداری اور کفر کے الزامات لگا کر دشمنوں کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ ذہین اور قابل لوگ یا پاکستان چھوڑ دیتے ہیں یا پاکستان کے دشمنوں سے جا ملتے ہیں۔
بدھ کی صبح میں نے ارادہ کیا کہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کی کوششوں پر کالم لکھا جائے کیونکہ میری خبر یہ تھی کہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کوششیں کافی کامیاب رہی ہیں۔ میری اس خبر کاذریعہ کچھ سینئر مغربی سفارتکار تھے جن کے خیال میں پاکستان کو اس نیک کام پر آمادہ کرنے میں چین کا کردار بہت اہم تھا کیونکہ چین آنے والے دنوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ ایران کی طرف سے گوادر پورٹ کو اپنے لئے خطرہ نہ سمجھا جائے بلکہ چین اس راستے سے ناصرف ایرانی تیل درآمد کرنا چاہتا ہے بلکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی کامیابی کیلئے بھی سرگرم ہے تاکہ اس منصوبے کو وسعت دیکر چین بھی فائدہ اٹھا سکے۔ سعودی عرب دنیا میں خام تیل کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے اور چین خام تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ سعودی عرب اور چین کے سفارتی تعلقات 1990ء میں قائم ہوئے اور کئی سعودی کمپنیاں چین میں ریفائنریز لگا رہی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی چین کے مفاد میں نہیں اور اتفاق سے پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں۔ میں یہ تفصیل بھی لکھنا چاہتا تھا کہ ایران اور سعودی عرب نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کیوں کی؟ ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی کو ہمیشہ اپنے کشمیری النسل ہونے پر فخر تھا اور انہوں نے 80 کی دہائی میں آیت اللہ علی خامنہ ای کو سرینگر بھی بھیجا تھا۔ علی خامنہ ای نے 2010ء میں کھل کر کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔سعودی عرب نے بھی ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی بلکہ 19اپریل 1993ء کو امام کعبہ شیخ عبدالرحمان السدیس نے اپنے خطبہ جمعہ میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی اور ان کے جہاد کو جائز قرار دیا۔ سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بہتر ہو جائیں تو کشمیر کے مسئلے پر یہ دونوں ممالک ایک اور ایک گیارہ بن سکتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک سو گیارہ بن سکتے ہیں لیکن وزیراعظم نوازشریف کے کامیاب دورہ سعودی عرب اور ایران کے اگلے ہی روز چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ کروڑوں پاکستانیوں کی طرح میرا دل اور دماغ بھی چارسدہ میں اٹک گیا۔ بھارت، مشرق وسطیٰ، امریکا اور برطانیہ کے بہت سے ٹی وی اور ریڈیو چینلز نے چارسدہ حملے پر تبصرے کیلئے فون کرنا شروع کردیئے۔ پریشانی میں فون بند کر دینا مناسب سمجھا اور پھر چارسدہ حملے کی ٹائمنگ پر غور کرنے لگا۔ اس حملے کی ٹائمنگ نے دنیا بھرکے میڈیا کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ امریکی صدر اوباما نے چند دن پہلے پاکستان کے بارے میں جو کہا تھا وہ درست ثابت ہوا۔ پاکستان کا میڈیا سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کیلئے اپنی حکومت کے کردار پر فخر کرنے کی بجائے 20 جنوری کی صبح سے شام تک چارسدہ حملے پر چیخ و پکار کرتا رہا۔ دہشت گرد جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل ہوگئے۔ پورا پاکستان ایک دفعہ پھر رنج و الم کی تصویر بن چکا ہے لیکن جان کی امان ہو تو کچھ سوالات اٹھانا چاہتا ہوں۔ مقصد کسی کی دل آزاری نہیں کیونکہ اپنا دل تو پہلے خون خون ہے۔
وہ سب اہل اختیار جو بار بار یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر تباہ کردیا گیا کیا وہ اب بھی اپنے دعوئوں پر قائم ہیں؟ اگر ہاں تو کیوں؟ صرف جنوری 2016ء کے پہلے تین ہفتوں میں کوئٹہ، پشاور، خیبر اور چارسدہ میں اوپر تلے ہونے والے کئی حملوں نے ایسے تمام دعوے غلط ثابت نہیں کئے؟ کیا چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر خوفناک حملہ ہمارے طاقتور خفیہ اداروں کی ناکامی نہیں؟ ہمیں بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں ایف 16 طیاروں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ کیا ہمیں بتایا جائے گا کہ ایف 16 طیاروں کی بمباری سے کون کون سے اہم دہشت گرد مارے گئے؟ مارے جانے والے دہشت گرد قبروں سے نکل نکل کر ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں یا وہ مارے ہی نہیں گئے بلکہ مختلف علاقوں میں پھیل کر نت نئے حملوں کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں؟ امید ہے کہ ان سوالات کو ملک دشمنی قرار دینے کی بجائے ان پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے گا اور داخلی و خارجی پالیسی میں موجود نقائص کو دور کرنے کیلئے سیاسی و فوجی قیادت کوئی موثر لائحہ عمل ترتیب دے گی۔