میرے دوست افتخار احمد کا فون آیا کہ ایک بڑی مشہور ویب سائٹ پر کالم نگاروں کے بارے میں کرائے گئے ایک سروے میں میرا نمبر پانچواں تھا۔ بڑا حیران ہوا کہ ابھی تو مجھے کالم لکھتے ہوئے دو سال بھی پورے نہیں ہوئے کہ میرے پڑھنے والے مہربانوں نے اتنی بڑی عزت بخشی۔ پھر یہ سوچ کر ڈر گیا کہ لوگ کتنی عزت دیتے ہیں لیکن یہ صرف ہم کالم نگار، صحافی، سیاستدان اپنی چھوٹی چھوٹی مصلحتوں اور خواہشوں کو پورا کرنے کیلئے ان کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں۔ لوگوں کی نظر میں اپنا اچھا امیج بنانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ پتہ نہیں کتنے ایسے خوش نصیب ہوں گے جو ساری عمر اس امیج کو سنبھال کر زندہ رہتے ہیں کیونکہ قرآن میں خدا نے فرمایا ہے میں جسے چاہوں عزت دوں اور جسے چاہے ذلت۔ میں اس سے یہ سمجھا ہوں کہ خدا پہلے عزت دیتا ہے نہ کہ ذلت اور یہ میرے جیسے گناہگار لوگ ہوتے ہیں جن سے شاید وہ عزت نہیں سنبھالی جاتی ہے اور وہ ذلت کا انتخاب کر لیتے ہیں ورنہ خدا نے تو پہلے عزت کا لفظ قرآن میں لکھا ہے۔ پچھلے ہفتے لاہور گیا تو حسن نثار نے کیا خوبصورت بات کہی کہ تالی بجوانے کیلئے لکھنا کتنا آسان کام ہے۔ اصل بات تو تب ہے کہ گالیوں کی بوچھاڑ میں بھی کوئی سچی بات لکھنے کی کوشش کی جائے۔
بات پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اپنے ملتانی یار خالد مسعود سے بات ہو رہی تھی کہ ہم دونوں کے مشترکہ گرو ہارون الرشید جب کسی سے متاثر ہوتے ہیں تو بس ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جب میں نے اپنا یہ فقرہ ہارون صاحب کو سنایا وہ تھوڑی دیر چپ رہے اور پھر بڑی دیر تک ہنستے رہے اور بولے کہ یار بات تو صحیح کی ہے۔ آج ہی انہوں نے اپنے کالم میں گوجرانوالہ کے ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کو اپنی اس فہرست میں شامل کر لیا ہے جس میں اس سے پہلے صرف گلبدین حکمت یار، شعیب سڈ ل، حمید گل اور عمران خان کے نام نظر آتے ہیں۔ ہارون صاحب مجھے اپنا نالائق چیلا سمجھ کر میری یہ گستاخی معاف کر دیں گے کہ اگر ان کے نئے ہیرو کی اس فلاسفی پر عمل کیا جائے کہ گوجرانوالہ میں تمام کرائمز کی بنیاد صرف اور صرف کیبل ٹی وی اور ان پر دکھائی جانے والی بھارتی فلمیں ہیں اور انہیں بند کرنے سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے تو میرا خیال ہے ڈی آئی جی صاحب کو ہم پر رحم کرنا چاہیے۔ کیا پورے امریکہ، یورپ اور بھارت میں اغوا کی فلمیں نہیں بنتیں اور وہاں کی پولیس نے کرائم پر قابو پانے کیلئے پہلے سینما ہاؤسز اور کیبل ٹی وی بند کرائے تھے۔ مجھے حیرانی ہو رہی ہے کہ اتنا زبردست آئیڈیا جو انہوں نے ایجاد کیا ہے وہ یورپین، امریکن اور بھارتی پولیس کو کیوں نہیں آیا۔
خدا نے بھی ہمیں کیسے کیسے تحفے عطا کیے ہیں۔ اور سنیں۔ راولپنڈی میں آگ سے جلنے والے پلازے کے مالک صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے پلازے میں تخریب کاری بھارت نے کرائی تھی۔ موصوف یہ بات کسی کو نہیں بتاتے کہ انہوں نے پلازہ کی Exit پر بھی دکانیں بنا کر بیچ ڈالی تھیں۔ یوں نہ تو فائر فائٹر اندر داخل ہو سکتا تھا اور نہ کوئی اندر سے باہر نکل سکتا تھا ۔کئی لوگ مر گئے۔ موصوف پر مقدمہ کیا ہوتا انہوں نے الٹا بھارت پر مقدمہ کر دیا۔ لوگ جل گئے مر گئے۔ کسی نے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی الٹا شہباز شریف بھی موصوف کے آگے ملزم بنے ان کے نخرے اٹھانے میں مصروف ہیں۔
قاضی حسین احمد اسلام آباد میں قبائلیوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور قتل و غارت کا سارا الزام ان فوجیوں پر ڈالتے ہیں جو وہاں جانیں دے رہے ہیں۔ اپنی اس تقریر میں ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں جنہوں نے لڑکیوں کے 170 سے زیادہ سکول بموں سے اڑا دیئے ہیں۔ اکثر اپنے دوست کالم نگاروں اور صحافیوں کی باتیں پڑھتا اور سنتا ہوں تو مجھے بڑی ہنسی آتی ہے کہ جس دن ان کے پسندیدہ طالبان حکمران اسلام آباد آ پہنچیں گے تو سب سے پہلے انہی ٹیلی ویژن اسٹیشنوں اور اخبارات کو بموں سے اڑائیں گے جو ان کی مداح سرائی میں صبح شام مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں دہشتگردوں کو بھی ٹی وی اور اخبارات میں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اپنا موقف اور جواز پیش کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ ہمارے سیکورٹی کے ادارے بھی اس نیک کام میں برابر کے شریک ہیں جو صحافیوں کو بریفنگ میں یہ بتاتے ہیں کہ بیت اللہ محسود اور فضل اللہ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ محب وطن اور اپنے لوگ ہیں۔ اگر وہ اپنے لوگ ہیں تو پھر فاٹا اور سوات میں اپنے سینکڑوں فوجیوں کے گلے ہم نے کیوں کٹوا دیئے ہیں اور ان بیچارے شہیدوں کی بیواؤں، یتیموں اور ان کے والدین کا کیا قصور تھا۔
بات پھر کہیں اور نکل جائے گی کیونکہ میرے سامنے ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک تصویر پڑی ہے۔ یہ تصویر لاڑکانہ کے وومن پولیس اسٹیشن کی ہے جو بینظیر بھٹو نے اپنے علاقے کی مظلوم خواتین کو انصاف دلوانے کیلئے بنوایا تھا۔ میرے بس میں ہوتا تو میں اس رپورٹر اور فوٹو گرافر کو اے پی این ایس کا بہترین فوٹو گرافر آف دی ایئر کا ایوارڈ دیتا۔ اس تصویر میں حوالات میں بند ایک ادھیڑ عمر عورت اپنا آدھا منہ چھپائے کیمرے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کے پیچھے چھ سات چھوٹے معصوم بچے بیٹھے ہیں اور تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ کچھ دن پہلے اس علاقے میں ایک پولیس مقابلے میں تین پولیس والے مارے گئے تھے۔ مارنے والے بھاگ گئے تھے۔ پولیس نے بدلے میں جا کر ایک ہی خاندان کے سات بچے جن کی عمریں تین سے سات سال تھیں اور آٹھ عورتیں ان کے گھروں سے اٹھائیں اور لا کر بینظیر بھٹو کے حکم پر بنائے گئے اس وومن پولیس اسٹیشن میں بند کر دیں۔ یہ عورتیں اور بچے اس وقت تک بینظیر بھٹو کے تھانے میں بند رہیں گے جب تک وہ مقابلہ کرنے والے ملزم پولیس کے آگے آ کر ہتھیار نہیں ڈالتے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ملزموں کو پکڑنے کا یہ آسان طریقہ دنیا کے مہذب معاشرے کے پولیس افسروں کو کبھی کیوں نہیں آیا۔ جب 7 جولائی 2005ء کو لندن میں محمد صدیق نامی شخص نے خود کش حملے کرا کر 52 کے قریب عورتوں اور بچوں کو مار ڈالا تھا تو بھی برطانوی پولیس نے اس کی بیوہ حسینہ پٹیل کو گرفتار نہیں کیا۔ دو دن تفتیش کیلئے بلایا گیا تو شور مچ گیا کہ بیوی کو اس کے شوہر کے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی اور یہاں سات بچے اور آٹھ عورتیں پتہ نہیں کتنے دنوں سے اس تھانے میں قید ہیں اور مزید رہیں گے۔
پولیس مقابلہ کرنے والے بھی مرد تھے انہوں نے بھی تین پولیس والے مارنے سے پہلے اپنے ان بچوں اور عورتوں سے مشورہ نہیں کیا تھا اور ان بچوں اور عورتوں کو ان کے گھروں سے اغوا کر کے تھانے میں بند کرنے والے حضرات بھی مرد ہی ہیں اور انہوں نے بھی کسی عدالت سے پوچھنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ کوئی ان سے کچھ نہیں پوچھے گا۔ ان کا اندازہ کتنا درست ہے اور وہ بچے اور عورتیں ابھی تک تھانے میں بند ہیں۔ یہ تصویر شاید ایم این اے نفیسہ شاہ جنہوں نے انسانی حقوق میں ڈگری لے رکھی ہے ، نے بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ اگر دیکھی بھی ہو گی تو یہ سوچ کر خاموش رہی ہوں گی کہ سید قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں لہٰذا جو کچھ ہو رہا تھا وہ درست تھا۔ پیپلز پارٹی کی ایم این اے فوزیہ وہاب کو بھی یہ عورتیں اور بچے نظر نہیں آئے ہوں گے جو پچھلے کئی سالوں میں ہمیں روزانہ ای میل کر کے بتاتی رہتی تھیں کہ پاکستانی میں انسانی حقوق کتنی بری طرح پامال ہو رہے تھے اپنی حکومت آتے ہی سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ شیری رحمن کے پاس تو ویسے ہی ان چھوٹی موٹی باتوں کیلئے وقت نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی کی فرحین مغل، شازیہ مری، سسی پلیجو اور ان جیسی دیگر خاتون وزیروں کے پاس بھی ان پولیس اسٹیشن میں یرغمال سات بچوں اور آٹھ عورتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب تک تو بینظیر بھٹو کے نام صرف ایئر پورٹس، سڑکوں اور ہسپتالوں کے نام رکھے جا رہے تھے۔ داد دینی چاہیے بینظیر بھٹو کے سیاسی وارثوں کو جو اپنی لیڈر کے قاتلوں کو تو نہیں ڈھونڈ سکے لیکن انہوں نے ان کے حکم پر لاڑکانہ کی مظلوم عورتوں کو انصاف فراہم کرنے کے نام پر بنائے گئے اس تھانے کا کیا مصرف ڈھونڈ نکالا ہے!!