• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذوالفقار علی بھٹو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم کے لئے آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی دانش گاہوں میں گئے، واپس وطن لوٹے تو ایک دو برس میں ہی کراچی کی اعلیٰ سیاسی و سماجی سوسائٹی میں خاندانی وجاہت رکھنے والی ایک پُر کشش شخصیت کی حیثیت سے متعارف ہو گئے۔ تب پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا۔ 1958 میں پاکستان میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ فوجی آمر کی نگاہ انتخاب ذوالفقار علی بھٹو پر پڑی اور انہوں نے بھٹو کو وزیر صنعت کی حیثیت سے اپنی کابینہ میں شامل کر لیا۔ اس وقت نوجوان بھٹو کی عمر محض تیس برس تھی۔ بھٹو اپنی ذہانت سے ایوب خان کے دل و دماغ پر چھا گئے اور وہ دہائیوں کی منازل سالوں اور مہینوں میں طے کرتے ہوئے صرف 34برس کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ مقرر کر دیئے گئے۔ ایک موقع شناس سیاست دان کی کی طرح بھٹو نے چند کلیوں پر قناعت کرنے کی بجائے گلشن میں علاج تنگی ٔ داماں پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دی اور جلد ہی انہوں نے ایوب خان سے اپنی راہیں جدا کر لیں اور 1967میں انہوں نے پاکستان کے دل لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر بنیاد رکھ دی۔
یہ تو پس منظر ہے باقی سارا کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک مورخ، مبصر یا محقق کی حیثیت سے ہر صاحب قلم پر تاریخ کا یہ قرض ہوتا ہے کہ وہ محض ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر صرف تعریف ہی تعریف یا تنقیص ہی تنقیص نہ کرے بلکہ حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کرے۔ بھٹو نے اس قوم کو تین چیزیں دیں ایک 1973ء کا آئین دوسری ایٹمی پروگرام کا آغاز اور تیسری روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ، اس نعرے کی سخت جانی کا اندازہ لگایئے کہ ان میں سے کوئی ایک شے بھی قوم کے کسی فرد کو نہیں ملی مگر آج 47برس کے بعد بھی یہ نعرہ موجود ہے، اگرچہ اب یہ اپنی کشش کھو چکا ہے۔
اب ذرا یہ دیکھئے کہ بدلے میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس قوم سے لیا کیا ہے۔ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مل کربھٹو نے سارے ایسے اقدامات کئے جو کشیدگی کے شعلوں کو ہوا دینے اور مشرقی بازو کو جدا کرنے والے تھے۔ وہ تدبر سے کام لیتے اور اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے اقتدار کر دیتے تو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی نوبت نہ آتی اور بات کا بتنگڑ نہ بنتا اور یوں ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی نہ ہوتی اور نہ ہی ہمیں سقوط ڈھاکہ اور 16دسمبر1971ء جیسا روز سیاہ دیکھنا پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک شاطر سیاست دان اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ ذہین و فطین اور شاطرانہ سیاست کے دائو پیچ کے اثاثے سے مالا مال تھے مگر وہ فہم و فراست اور تدبر و حکمت کی دولت سے محروم تھے۔
اگر وہ سیاستدان کی بجائے اسٹیٹس مین یعنی مدبر ہوتے تو وہ افسانے کو ایک ہولناک انجام سے دوچار کرنے کے بجائے اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر اس ٹریجڈی سے بچا لیتے جو ہمیں مشرقی پاکستان کی جدائی کی اور ساری دنیا میں جگ ہنسائی کی صورت میں برداشت کرنا پڑی۔
مدبر کون ہوتا ہے؟ مدبر وہ ہوتا ہے جس کی نگاہ محض وقتی سیاسی نفع نقصان کے بجائے قوم کے مستقل فائدے اور ایک شاندار مستقبل پر مرکوز ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دو ایسے مدبر ہمارے ہی خطے میں تھے جنہوں نے اپنی پالیسیوں سے اپنی اپنی قوم کی تقدیر بدل دی۔
ایک سنگا پور کے سابق آنجہانی وزیراعظم اور مدبر سیاستدان لی کان یو اور دوسرے چین کے ممتاز دانشور اور مدبر ڈینگ زپائو پنگ تھے۔ لی کان یو بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے مگر انہوں نے جنوبی مشرقی ایشیا کی ایک پسماندہ سی مچھیروں کی بستی کو چند سالوں میں دنیا کی جدید ترین اور خوشحال ترین ریاست سنگا پور بنا دیا جس کا معیار زندگی امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں بڑھ کر ہے اور آج سنگا پور کو سرمایہ کاری کی جنت کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس ترقی یافتہ چھوٹی سی ریاست کی جرأت اظہار دیکھئے کہ لی کان یو نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا جناب صدر! ہم آپ کے دوست ضرور ہیں مگر آپ کو ہماری تہذیب و ثقافت پر انگشت نمائی کی ہرگز اجازت نہیں۔ ڈینگ زیائو پنگ نے چینی حکومت کے مشیر ہونے کی حیثیت سے کمیونسٹ چین کو آزاد معیشت اور گلوبل مارکیٹنگ کا فلسفہ اور قابل عمل منصوبہ دیا جس کی بناء پر آج چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن چکا ہے اور چین میں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی دکھائی دیتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو کوئی ایسا آئیڈیا یا پروگرام نہیں دیا جس کے اثرات سے قوم اب تک فیض یاب ہوتی نظر آتی۔ بھٹو نے قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان کی بجائے ایسی سیاسی قیادت دی جس کا آئیڈیل بھٹو کا سیاسی ماڈل ہے، یعنی ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرو آج کے سیاستدان بھی بھٹو کی طرح قوم کو روٹی دیتے ہیں نہ کپڑا دیتے ہیں، نہ مکان دیتے ہیں اور نہ ہی بجلی و گیس دیتے ہیں مگر رات دن میڈیا پر خوشنما اور پُر فریب نعروں اور وعدوں کا ست رنگیا محل سجا کر دکھاتے ہیں۔
میکاولی کے آئیڈیل سیاست دان کا قول ہے۔
"If nobody is afraid of me, I,m meaningless"
اسی اصول کے تحت ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں نہ صرف اپوزیشن کے سیاست دانوں کو ڈرا دھمکا کر رکھا ہوا تھا بلکہ اپنی پارٹی کے جے اے رحیم جیسے سینئر سیاست دانوں کی طرف سے ہلکے سے حرف تنقید کو بھی برداشت نہ کرتے اور ان کی تذلیل میں پل بھر کی تاخیر نہ کرتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو کے دور حکومت میں کئی شخصیات کے سیاسی قتل کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ قائداعظمؒ کی صاف شفاف سیاست کو ان کی وفات کے بعد محلاتی سازشوں سے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ جس اسٹیبلشمنٹ کو قائداعظمؒ اقتدار سے دور رکھنا چاہتے تھے وہ اقتدار پر قابض ہو گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قائد کا طرز سیاست قوم کو لوٹانے کی بجائے اسے میکاولی کا اندازِ سیاست دیا۔ بھٹو مغربی تعلیم کی کچھ لاج رکھتے تو اپنی پارٹی کو موروثی بادشاہت بنانے کی بجائے اسے ایک جمہوری جماعت بنا دیتے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وطن واپس لوٹ کر قوم کو حقیقی مساوات، سو فیصد تعلیم، میڈیکل انشورنس، صنعتی ترقی و خوشحالی کے بجائے اس وقت صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیایا جب کمیونسٹ دنیا آزاد معیشت کی طرف رخت سفر باندھ رہی تھی۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے دانش افرنگ سے عملی سیاست کے دائو پیچ تو سیکھے مگر وہ شرف انسانیت کے درس سے محروم رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی انا اس کی ذہانت سے بڑی تھی اسی لئے وہ سقوط ڈھاکہ کی ٹریجڈی اور اپنی پھانسی کی ٹریجڈی دونوں کو نہ روک سکے ۔
پاکستان کا کئی دہائیوں سے سب سے اہم مسئلہ ایک ایسی قیادت ہے جس میں ذہانت بھی ہو، دانش بھی ہو، حکمت بھی ہو، فراست بھی ہو، دیانت بھی ہو، وژن بھی ہو، تاریخ پر بھی نظر ہو اور ورلڈ ویو بھی واضح ہو۔ میں سوچتا ہوں ہم ان خوش قسمت ممالک کی صف میں کب شامل ہوں گے جن کی قیادت میں مذکورہ بالا سارے اوصاف موجود ہوتے ہیں۔ میرے دانشور دوست کہیں گے کہ یہ ساری خوبیاں ایک شخص میں یکجا نہیں ہوسکتیںتو میرا جواب ہوگا کہ باقی خوبیوں پر تو کمپرومائز ہوسکتا ہے مگر حاکم کی دو شرائط پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ایک دیانت اور دوسری وژن، یہ ازبسکہ ضروری ۔



.
تازہ ترین