• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ کی حکومت نے پاناما کیس کے فیصلہ کے دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاری شروع کردی ہے جو کہ بنیادی طور پر ایک مکمل سیاسی اور انتخابی بجٹ ہوگا جس میں ووٹرز اور خاص کر نوجوانوں اور خواتین کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے بڑی مہارت سے ایسے اقدامات کا اعلان کیا جائے گا جسے یقینی طور پر مخالف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے حکومت کی معاشی ماہرین کی ٹیم کی کرشمہ سازی یا شعبدہ بازی قرار دیا جائے گا۔ یہ بات ویسے بھی دل کو لگتی ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجٹ ایسے ہی ہوتے ہیں اور پچھلی چار دہائیوں سے ایسے ہی آرہے ہیں۔ بجٹ تقریر اور فنانس بل کے اعلانات اور اقدامات بعد میں سیاسی ضرورت کے تابع ہوتے جاتے ہیں لیکن عوام بے چارے سیاسی حکومتیں یا فوجی حکمراں ،سب کو اپنا مسیحا سمجھ کر ان کی باتوں پر یقین کرتے چلے آرہے ہیں جس کی پھر انہیں سزا بھی ملتی رہتی ہے کیونکہ وہ اپنے حکمراں ایسے چنتے ہیں جن کے دعوئوں اور عمل میں تضاد ہی تضاد ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے ہاں نہ تو جمہوریت کے ثمرات عوام کو مل سکے ہیں اور نہ ہی آمرانہ نظام کے فوائد، بلکہ کمزور طرز حکمرانی اور جھوٹے وعدوں سے نظام چلانے والوں کی وجہ سے عوام کو سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی ناپید ہوتی جارہی ہے۔یہ صورتحال کسی تشویش سے کم نہیں ہے۔ اس لئے ملک میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جس کی بھی ہو، وہ عوام کے لئے بجٹ کو اگر فلاحی اور متوازن بنانے کااعلان بھی کرتی ہے تو وہ پھر اس کو سچا ثابت بھی کرے۔اس وقت تو یہ حال ہے کہ عوام کا سرکاری اداروں کے اعداد شمار سے اعتماد ختم ہوچکا ہے اور اب تو ہاروڈ ا سکول اور لمزجیسے اداروں کے حالیہ سیاسی سروے کے بعد تو عوام اس حوالے سے بھی پریشان ہوگئے ہیں کہ پاناما کیس کے پس منظر میں کرائے گئے اس سروے میں وزیر اعظم کی ذات کو ایمانداراور پاک قرار دے دیا گیا ہے۔ کیا یہ کام عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے زمرے میں نہیں آتا، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس سروے کی کیا ضرورت ہے۔ہمارا مشورہ حکمرانوں کو یہی ہے کہ مصنوعی طرز حکمرانی اور کارروائیوں سے ان کا ووٹ بینک مضبوط ہونے کی بجائے کمزور پڑسکتا ہے کیونکہ ایسے سروے دو تین ہزار افراد کی ذاتی اور سیاسی رائے پر ہوتے ہیں جنہیں 20-22کروڑ عوام پر ٹھونس دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کے ممبران کو بہترین قومی مفاد کا خیال کرتے ہوئے ایسے کارروائی والے کاموں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے کیونکہ مختلف نوعیت کے سروے کرانے اور پھر ان کی تشہیر پر جو کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہ قومی خزانے سے جاتے ہیں۔ایسے کاموں سے عوام میں بڑھنے والی بداعتمادی کا فائدہ اپوزیشن کو پہنچ سکتا ہے جیسے ملک میں حکومتی حلقوں کی طرف سے اقتصادی فرنٹ پر سب اچھا بلکہ بہت ہی اچھا کا راگ الاپا جارہا ہے۔ اپوزیشن کیا عوام کی اکثریت بھی انہیں ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت کو انتخابی بجٹ ایسا بنانا ہوگا جس سے عوام کو واقعی کچھ ریلیف ملے اور کم از کم ٹیکسوں کے نظام میں ایسا توازن قائم کرایا جائے جس سے ٹیکس چھپانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور جو لوگ مسلسل ٹیکس دے سکیں انہیں کچھ تحفظ حاصل ہوسکے تاکہ وہ ٹیکس انسپکٹرز کے رحم و کرم پر کاروباری یا تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے دیانت داری سے ریٹرن جمع کرانے کی سزا نہ بھگت سکیں۔ اسی طرح مہنگائی کو کم کرنے کے لئے طلب اور رسد کو متوازن بنانا ازحد ضروری ہے جبکہ سب سے زیادہ ضروری سستی بجلی کی فراہمی میں اضافے کا ہدف ہے جو پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔



.
تازہ ترین