سیالکوٹ(نمائندہ جنگ) سیالکوٹ کا تاریخی چوک علامہ اقبال ویرانی کا منظر پیش کر نے لگا، صدیوں پرانےاس چوک کا نام پہلے سبھا سنگھ چوک تھا ،قیام پاکستان کے بعد اس کانام ڈرماں والاچوک پڑگیا جسکی وجہ یہاں مٹی کے تیل کا کاروبار تھا جس کے خالی ڈرم چوک کے ارگرد رکھے جاتے تھے چوک میں ایک برگد کا درخت تھا جسکی چھاوں سے ماحول ٹھنڈا رہتا ، قریب ہی ہندوں کا مندر اور کنواں بھی ہوتا تھا جہاں اب سائیکل مارکیٹ بن چکی ہے اورمشرق کی طرف ہوٹل ہوتا تھا جسکی مالکن ایک آسٹریلیا خاتون جو بیگھی میں ہوٹل آتی ہوٹل کی بغل میں وسکی سنیٹر تھا جس کا مالک سائیکل پر آتا اور سارا سال سفید ویل کا کھرتہ پہن کر رکھتا شام کو چوک کے ارگرد ماشکی کے چھڑوکا سے زمین کی مٹی کی خوشبو دلفریب منظر پیش کرتی اور کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے بعدازاں ماحول کے بدلتے ہی چوک کا نام بھی باقاعدہ نام علامہ اقبال چوک رکھ دیا گیا، شہر کے اس مرکزی چوک کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے نام منسوب کرنے کے ساتھ یہاں یادگار تعمیر کی گئی جس پر شاہین نصب کیا گیا جس کا رخ مقبوضہکشمیرکی جانب ہے مگر اسے مسلسل نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے یہاں لگائے جانے والے فوارے اور لائٹس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے پودے تک غائب ہو چکے ہیں ، مینار کو تشہیری بینروں اور پوسڑز کے ذریعے ڈسپلے سینٹر میں تبدیل کردیا گیا،یہی وہ چوک ہے جہا ں سےتحریک نظام مصطفے کا آغاز ہوااور بعد ازاں پپیلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اجتحاجی تحریک کے دوران شہریوں پر فائرنگ کی گئی ، موجودہ وفاقی وزیر دفاع و پانی بجلی خواجہ محمد آصف نے قریبی دفتر پر چڑھ کر پی پی پی کا جھنڈا اتار تھا، یہ بات خواجہ عرفان حمید نے بتائی، چوک سے سیالکوٹ کے تاریخی قلعہ ،ریلوے اسٹیشن، ضلع کچہری، مجاہد روڈ، سیالکوٹ کینٹ، پیرس روڈ، لہائی بازار، سیالکوٹ چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری، خواتین یونیورسٹی، گورنمنٹ خواجہ صفدر میڈیکل کالج، جی پی او، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس،ریجنل انکم ٹیکس آفس،سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل، سٹیٹ بینک آف پاکستان، پولیس لائن، ڈی پی او، ڈی سی او آفس اور سول عدالتوں کی جانب راستے جاتے ہیں، شہریوں نے وزیر اعلی شہباز شریف سےتاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل چوک کی اصل شناخت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔