• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیاپر اپ لوڈ کی جانے والی آپ مختلف ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ تھوڑی بہت طاقت رکھنے والے نے اپنے سے کمزور کےخلاف ایک عدالت لگائی ہوئی ہے ، اس کے سر پر دو چار لوگ کھڑے ہیں اس کو نیم برہنہ کررکھا ہے اور اس کو بے دردی سے مار رہے ہیں وہ اپنی صفائی کےلیے اگر کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو اس کو لب کھولنے کی بھی سزا مارپیٹ کی شکل میں دی جاتی ہے اور جب آپ پوری ویڈیوز دیکھ لیں تو آپ کو احساس ہوگا جس شخص کو مارا پیٹا جارہاہے اس کا قصور کوئی ایسا بڑا نہیں کہ اس کی یوں درگت بنائی جائے، تھوڑا اور آگے بڑھتےہیں آپ کہیں بھی آ جارہے ہو ں سفر میں ہوں یا اپنی فیملی کے ساتھ تفریح پر نکلیں یا اخبارات اور چینلز کی خبریں پڑھیں یا دیکھیں تو آپ کو بھی احساس ہوگا کہ کہیں ٹریفک پولیس والے عام شہری کی درگت بنا رہے ہیںاور کہیں تگڑے شہری پولیس اہلکار پر پل پڑے ہیں۔
کہیں ایک معصوم طیبہ نامی بچی پر اتنا تشدد کیا جاتاہے کہ اس کے نہ صرف جسم پر بلکہ چہرے اور ہاتھوں پر بھی گہرے زخم صاف دکھائی دیتے ہیں اور یہ کام کوئی اور نہیں ایک ایسی فیملی کرتی ہے جس کے اپنے بچے بھی ہیں اورانہیںبچوں کا درد محسوس ہونا چاہیےمارے ہی معاشرے میں الزام لگا کر ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوںکے بھٹے میں زندہ جلا دیا جاتا ہے، ہم جس دین کے ماننے والے ہیں اور جس پیغمبر کی امت ہیں ان پر جب کافر تلوار سونت لیتا اورانتہائی برے لہجے میں کہتا ہے کہ اے مسلمانوں کے پیغمبر اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے تو حضورؐ نے فرمایا میرا اللہ ،وہ کافر تھر تھر کانپنے لگا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی پیغمبر اسلامؐ نے آگے بڑھ کر تلوار اٹھا لی اور وہی بات دھراتے ہوئے کہاکہ اے اجنبی اب تم بتائو کہ تمہیں کون بچائے گا تو اس نے کانپتے ہوئے کہا کہ مجھے تو اب آپ ہی بچا سکتے ہیں تو حضور ؐ نے اسے معاف کرتےہوئےیہ کہا کہ تمہیں بھی وہی ذات بجائے گی جس نے مجھے بچایا ہے یہ حسن سلوک دیکھ کر وہ اجنبی مسلمان ہوگیا ، ایک اور بہت اہم واقعہ ہے کہ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ صحابی نے حضورؐ کو بتایا کہ جب کافر میری تلوار کی زد میں آگیا تو اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہاکہ میں کلمہ پڑھتا ہوں اور میں مسلمان ہوگیا ہوں اب مجھے مت قتل کرو تو میں اسے جواب دیا کہ اب جب تمہیں موت سامنے نظر آرہی ہے تو تم یہ کہتے ہو کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور پھر وہ صحابی حضورؐ کو بتانے لگے کہ میں نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے اسے ہلاک کردیا،حضورؐ کے چہرے مبارک پر ناراضگی ظاہر ہونے لگی اور انہوں نے کہاکہ کیا تم نے اس کے دل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا کہ وہ جھوٹ کہہ رہا تھا ، کاش تم نے اس کو چھوڑ دیاہوتا، کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کا قصہ بچےبچے کو یاد ہے اور ایسے لاتعداد واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں جس میں حضورؐ نے اپنے حسن سلوک سے برے لوگوں کو بھی اسلام سے محبت سکھا دی لیکن ہم اس دین کی آڑ میں اپنے ہی لوگوں کو مارنے لگے ہیں۔ مشعل خان کا قتل ہمارے معاشرے پر ایک اور سیاہ دھبہ ہے میں یہ مطالبہ نہیں کرتا یا یہ سطور لکھ کر یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ذمہ داران کو سخت سزائیں دی جائیں، میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں خدا را ایسے ذہنوں اور سوچ کا علاج کریں جنہوں نے اپنی سوچ کو دین بنا کر لوگوں کو مارنا شروع کردیا ہے ، اس کی نہ دین اجازت دیتا ہے نہ ہی کوئی قانون اور ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں جس میں قوانین کے تحت سزا اور جزا دی جاتی ہے ، ان قوانین یا نظام پر تنقید یا بحث کی جاسکتی ہے لیکن اس آڑ میں ہم نہ ہی کسی کی جان لے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے کسی وقوعے کے جواب میں اپنی عدالت لگا کر کسی کی درگت بناسکتے ہیں ، حکومت، علما، اساتذہ، والدین اور میڈیا کو ملکر اس حوالے سے فوری طور پر حکمت عملی مرتب کرنا چاہیے اور ایسے مظالم کے مرتکب افراد کو سزاکے ساتھ ساتھ ذہنوں اور سوچ کی ٹیونگ کرنا ہے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔

.
تازہ ترین