• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانیوں کو احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں‘ ہم بالکل تہی دست نہیں ہیں‘ اگر ہمارے حصے میں کچھ خامیاں‘ غلطیاں‘ کوتاہیاں ہیں تو دامن میں بعض قابل فخر کارنامے اور کامیابیاں بھی ہیں۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان پیدا ہوتا ہے‘ جو زندگی بھر اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔‘‘ پوچھا‘ کیا حضرت آپؐ کے ساتھ بھی؟ فرمایا ’’ہاں ‘ مگر میں نے اسے مسلمان بنا لیا ہے‘‘۔ پاکستان کے پیدا ہوتے ہی‘ اس کے ساتھ ایک بڑااور طاقت ور شیطان پیدا ہوا تھا ‘ اس اکیلے شیطان میں ہزاروںکی شیطانیت بھری ہوئی تھی‘ ہمارے حصے کے شیطان کے اساتذہ‘ چانکیہ اور میکاولی نے اسے اور بھی زیادہ ڈرائونا اور خطرناک بنادیا تھا۔ ہمیں آج تک اس کے ’’شر‘‘ سے نکلنے کیلئے ہزاروں مشکلات درپیش ہیں۔ دنیا بھر کی کل آبادی چھ ارب لوگوں پر مشتمل ہے‘ کل آبادی کا نصف دو ملکوں یعنی چین اور انڈیا ہیں۔ یہ دونوں ملک پاکستان کے ہمسایہ ہیں‘ دونوں ایٹمی قوت ہیں‘ ایک کے پاس دنیا کی سب سے بڑی مسلح فوج ہے اور دوسرے کے پاس دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے‘ اور دنیا کی دوسری بڑی عالمی طاقت روس بھی ہماری ہمسائیگی کا حصہ ہے۔ ان خطرناک بڑی بڑی طاقتوں کے درمیان زندہ بچ جانا اور باوقار کھڑے رہنا بہت دشوار گزار تھا۔ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوںمیں شریک ہونے کے باوجود‘ ہم نے کمیونسٹ چین کے ساتھ دوستی بنائی اور نبھائی بھی۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھا‘ 1980ء کی دہائی میں روس کے ساتھ براہ راست تصادم تک نوبت آن پہنچی تھی۔ اس میں کامیاب گزر گئے۔ بااثر ملکوں اور عالمی طاقتوں کی مخالفت اور پابندیوں کے باوجود پاکستان نے خطرے کی لکیر پار کر لی‘ جس کے قریب جاتے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہے حتیٰ کہ ایران کا انقلاب بھی اس لکیر کے قریب آ کے ٹھٹھک گیا اور واپسی کی راہ میں دیر نہیں لگائی۔ یہ کامیابیاں ہماری مستقل مزاجی ‘ثابت قدمی‘ دفاعی حکمت عملی‘ خارجہ تعلقات میں مہارت اور چابکدستی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی تھیں۔ دنیا میں کتنے ملک ہیں جنہوں نے ہر لمحہ خطرے میں بسر کیا اور ہر دن پہلے کے مقابلے میں مضبوط اور طاقتور ہوتے رہے۔ اپنے مقابلے میں بہت بڑے اور طاقتور دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عزت اور وقار کے ساتھ کھڑے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھ بڑے ملکوں میں ایک‘ فوج کی تعداد کے اعتبار سے بھی اس کا چھٹا نمبر ہے‘ دفاعی صلاحیت اور مہارت میں اپنے دشمنوں پر نمایاں برتری حاصل ہے‘ عالم اسلام میں فوجی اور دفاعی معاملات میں طاقت ور ترین تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اسلامی دنیا میں اس کی قدر و منزلت اور نمایاں قامت کی وجہ ہر ملک کے ساتھ محبت اور باہمی احترام کے رشتے کی وجہ سے ہے۔ تنازعات ہوں یا قومی مصائب پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر دوستوں‘ بھائیوں کا ساتھ دینے اور مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کو جو چیز دوسرے مسلمان ممالک سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ اس کا دوستانہ اور مصالحانہ کردار ہے‘ پاکستان کا دنیا بھر میں کسی مسلمان ملک کے ساتھ کوئی جھگڑا اور تنازع نہیں‘ نہ صرف آج بلکہ تاریخ کے کسی دور میں بھی نہیں رہا‘ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی اس خطے کا کسی مسلمان ملک سے تنازع نہیں تھا۔ ترکی کا عربوں کے ساتھ‘ عربوں کا ترکوں کے ساتھ‘ ایرانیوں کا ترکوں کے ساتھ‘ ترکوں کا ایرانیوں کیساتھ ‘ ایران کا عربوں کے ساتھ‘ عربوں کا ایران کیساتھ ‘ آج اور تاریخ کے مختلف ادوار میں کبھی جھگڑا‘ کبھی تصادم نہیں رہا لیکن پاکستان کا پس منظر اس خرابی سے مبرا‘ ہر مسابقت اور مخالفت سے پاک ہے۔ سب مسلمان ملکوں کے ساتھ محبت اور احترام کا رشتہ مسلسل چلا آیا ہے۔ ان کے باہمی تنازعات میں بھی فریق بننے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ تنازعات ختم کروانے اور ان کے مابین اتحاد اور یکجہتی کی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ ترکی‘ ایران‘ عالم عرب‘ افریقہ اور مشرق بعید کے مسلمان ملکوں کے ساتھ بھی ابتدا سے گہرے برادرانہ تعلقات رہے۔ 1965ء کی جنگ میں دور و نزدیک کے اسلامی ممالک نے جس طرح پاکستان کی حمایت اور مدد کی وہ جدید دور میں اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا حیرت انگیز واقعہ ہے۔
پاکستان اور پاکستانیوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہی اس بات پر مضطرب ہونا یا تقسیم ہونا چاہئے کہ مشرق وسطیٰ کے حالیہ جھگڑے میں ایران کا ساتھ دیں یا سعودی عرب کے اتحاد میں شامل ہوں؟ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے معروضی حالات میں اپنے اور دوستوں کے مفاد میں بہترین فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک ثالث اور مصالحت کنندہ کا کردار ادا کریں۔ جنگ اور تصادم میں ہر ایک کو فریق اور شریک مل جائیں گے لیکن متوازن اور بے لوث مصالحت کنندہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ خانگی اور مقامی جھگڑوں میں پنچایت یا جرگہ‘ اجنبی یا غیرمتعلق لوگوں پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ دینے کیلئے یا صلح کی غرض سے اپنی ہی برادری اور قبیلے کے ہمدرد‘ دیانت دار اور مصنف مزاج لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے‘ جو انہیں تصادم کی راہ سے ہٹا کر بڑے نقصان یا المیے سے بچاسکیں۔
ہمیں اپنی سیاسی اور فوجی قیادت پر طعنہ زن ہونے اور آوازیںکسنے کی بجائے‘ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ انہوں نے صحیح سمت میں بروقت قدم اٹھایا ہے۔ فوجی اور سیاسی قیادت مصالحت کے مشن پر مل کر روانہ ہوئی تو یہ قابل قدر واقعہ ہے۔ ہمارے فوجی سالار کو گزرے سال کے دس بہترین جرنیلوں میں نمبر ایک فوجی تسلیم کیا گیا ہے۔ انہیں ’’مین آف ایکشن‘‘ اور باوقار شخصیت مانا جاتا ہے‘ جو اپنی کہی بات کو پورا کرتا اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔
نواز شریف کے ساتھ ہزار اختلافات کے باوجود سب جانتے ہیں کہ اس میں ’’قائل‘‘ کرنے کی صلاحیت کم ہو تب بھی ’’منا لینے‘‘ میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ ان کی ’’معصوم صورت‘‘ چہرے پر ’’حیا‘‘ کی سرخی کام آسان کرنے میں تیر بہدف ہے۔ امریکی صدر کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن کی کتابوں میں نواز شریف کی اس صلاحیت کا اعتراف موجود ہے۔ پاکستان کے اندر بھی اگر اختلاف آخری حدوں کو چھونے لگے تو سیاسی جماعتوں کی ’’بیٹھک‘‘ سے جب لوگ باہر نکلیں تو ان کے اندر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ نواز شریف کا جادو اثر کرشمہ ہے ‘جو پاکستان کی سیاست میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان صفات کی فوجی اور سیاسی قیادت باہمی مشاورت سے مل کر قدم اٹھائے تو کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے دورۂ سعودی عرب اور ایران نے کافی مثبت اثر چھوڑا ہے۔ پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی گئی ‘ ان دونوں ملکوں نے پورا احترام دیا‘ تجاویز کو سنا‘ اختلاف ختم کرنے کیلئے مناسب’’میکنزم‘‘ بنانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ایران نے اس ملاقات کے دوران ہی مسئلے کے حل کی خاطر ’’فوکل پرسن‘‘ مقرر کر دیا اور پاکستان نے سعودی عرب سے ایسا کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوں مسئلے کے حل کی راہ سجھائی دینے لگی۔ ہماری قیادت نے اگر معمول کی سہل انگاری اختیار نہ کی تو مشرق وسطیٰ کی بھڑکتی آگ کو کسی حد تک ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔
ترکی ‘ایران‘ سعودی عرب‘ انڈونیشیا اور پاکستان کی قیادت اگر آپس میں مل بیٹھے تو نہ صرف حالیہ اختلافات کم کئے جا سکتے ہیں بلکہ عالم اسلام کے باہمی جھگڑے نمٹانے اور انہیں ایک ’’پلیٹ فارم‘‘ پر مل بیٹھنے کا قابل عمل راستہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کیلئے جو کردار منتخب کیا یہی پاکستان کو زیبا ہے‘ اس کے سوا کوئی دوسرا ’’رول‘‘ بنتا ہی نہیں۔ ہماری قیادت نے درست فیصلہ کر کے بروقت قدم اٹھایا‘ اس پر ان کی تعریف کی جانی چاہئے۔ اس سے کہیں زیادہ تحسین اور شکر گزاری سعودی عرب اور ایران کیلئے جنہوں نے پاکستان کے اس کردار کو قبول کیا اور ہمارے وفد کی عزت افزائی فرمائی ‘ گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا‘ ان کی تجاویز پر توجہ دی‘ اختلافات ختم کرنے کی کوششوں کوپذیرائی بخشی۔
تازہ ترین