• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججوں کو پلاٹ کی الاٹمنٹ فیور اور مس کنڈکٹ ہے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

اسلام آباد (انصار عباسی)قابل احترام سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے چند منتخب طبقات کے لئے رہائشی پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی پالیسی جانبداری اور ناانصافی ہے لیکن اعلی عدلیہ کے ججوں کے معاملے میں ضابطہ اخلاق کے مطابق بھی نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس، جنہوں نے حکومت کی طرف سے اس طرح کی پیش کش قبول نہیں کی تھی جبکہ فاضل عدالت میں ان کے ساتھیوں کو اسلام آباد میں پالیسی کے مطابق دو رہائشی پلاٹس الاٹ کیے گئے تھے، نے کہا کہ حکومت اس طرح کی پالیسی اختیار نہیں کر سکتی جہاں ریاستی وسائل چند منتخب لیکن معاشرے کے بااثر طبقات کے لئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اعلی عدلیہ کے ججوں کے معاملے میں، میری نظر میں ایک پلاٹ کی الاٹمنٹ کی پیش کش بھی قبول کرنا ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ججز صدارتی حکم نامے (پنشن، تنخواہ اور مراعات) کے تحت کوئی ایسی چیز قبول نہیں کرسکتے جو اس حکم نامے میں کی گئی پیش کش  سے بڑ ھ کر ہو۔ دی نیوز نے جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ سے بدھ کو اس وقت رابطہ کیا تھا جب ان کے ایک لمس (LUMS) کے ساتھی نے اس نمائندے سے رابطہ کر کے وضاحت کی کہ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے حکومت سے ایک پلاٹ بھی حاصل نہیں کیا۔ دی نیوز نے اپنی ایک حالیہ خبر، ’’جسٹس اعجاز افضل کے خلاف بدنام کرنے کی مہم بے بنیاد ہے‘‘ میں غلطی سے یہ ذکر کردیا تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ واحد استثنی ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں دوسرا رہائشی پلاٹ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ درحقیقت انہوں نے تو ایک پلاٹ بھی نہیں لیا اور نہ ہی وہ حکومت سے کسی فیور کی خواہش رکھتے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ اگرچہ معاشرے کے مخصوص طبقات کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی پالیسی کو غیرمنصفانہ کہتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت حلف اٹھانے والے جج تو کسی بھی پالیسی کے تحت ایسی پیش کش قبول ہی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ججوں پر مہربانی کرنے جیسا ہے۔‘‘ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے وضاحت کی کہ جج کس طرح حکومت سے پلاٹ وصول کر سکتے ہیں جبکہ انہیں آئے روز حکومت کے ہی خلاف مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے۔ انہوں نے ججوں کے لئے ضابطہ اخلاق کے ’’آرٹیکل VIII‘‘ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان کی رائے میں جج کا کسی سے بھی کسی مہربانی کو قبول کرنا اس آرٹیکل کے ساتھ جج کے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ’’تحائف صرف قریبی رشتے داروں اور قریبی دوستوں سے لیے جاسکتے ہیں اور صرف وہ جو روایتی ہوتے ہیں۔ مہربانی کے انداز میں کوئی بھی چیز جس کا عہدے پر کوئی اثر پڑے اس سے انکار کر نالازمی ہے۔ کوئی بھی پیش کش قبول کرتے ہوئے خواہ وہ عام ہو یا خاص،اس بات کی احتیاط کی جانی چاہیے کہ اس کا حقیقی مقصد جج کے فرائض سے متصاد م نہیں ہونا چاہیےجو جانبدارانہ سرگرمیوں اور ممکنہ فریق مقدمہ سے لاتعلقی ہے۔ ان کے ساتھی اشعر قاضی کی جانب سے بھیجی گئی ایک علیحدہ ای میل میں انہوں نے عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست کا حوالہ دیا ہے جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ کچی آبادیوں کے انہدام اور کم آمدنی والوں کو گھروں کی فراہمی میں فیڈریشن کی غفلت بھی شامل ہے۔ ای میل میں وضاحت کی گئی ہے کہ دیگر آئینی دفعات کے علاوہ درخواست گزار نے آئین کی دفعہ 38 ڈی پر انحصار کیا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کی جائیں جیسے خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی سہولت، تمام شہریوں کو بلاتفریق جنس، ذات، نسل یا مسلک کے، جو مستقل یا عارضی طور پر اپنی جسمانی کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کی وجہ سے اپنی روزی کمانے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘ای میل میں مزید کہا گیا ہے عوامی ورکرز پارٹی کی طرف سے جن آئینی دفعات پر انحصار کیا گیا ہے ان کو واضح کرنا بہت اہم ہے کہ یہ ’’پالیسی کا اصول ہے‘‘اور جو عدالت میں ناقابل نفاذ ہونے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ (آئین کی دفعہ 29 اور 30) اس کا استدلال یہ ہے کہ کسی بھی پالیسی کے اصول کی تکمیل کے لئے مناسب وسائل درکار ہوتے ہیں اور (عدالت نہیں) انتظامیہ / پارلیمنٹ کا یہ کام ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ یہ وسائل کس طرح مختص کیے جائیں گے۔ ای میل میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ استدلال قابل فہم ہے ۔ تاہم جب بہت اعلی سطح پر موجود پاکستانی فیصلہ ساز (سیاستدان، سینئر بیورکریٹس، فوجی جنرلز، ججز، صحافی) جو کہ پہلے ہی ریاست سے بہت سے فوائد حاصل کر رہے ہیں ، قیمتی وسائل ہتھیاتے رہیں جیسے سرکاری زمین تو معاشرے میں سب سے نچلی سطح پر موجود لوگ جن کے سر پر چھوت بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں کوئی بھی اس کے عملی نفاذ پر جائز طور پر سوال کر سکتا ہے۔
تازہ ترین