• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم حسن نثار نے31 جنوری کے شمارے میں اپنے کالم میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے ”وارننگ نما معروضات“ کا حوالہ دیتے ہوئے جن نکات کا ذکر کیا ان کو پڑھ کر ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب الطاف حسین نے میثاق جمہوریت کا بغور مطالعہ نہیں کیا۔ خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے قائد تحریک اگر اس دستاویز کو ذرا غور سے پڑھ لیتے تو یہ وارننگ نما معروضات پیش نہ کرتے اور اگر ان کے کہے پر اعتبار کیا جائے توشاید وہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی مخالفت بھی نہ کرتے۔ جناب حسن نثار لکھتے ہیں” ایسے حالات میں پیشہ ور‘ دیہاڑی باز اور موقع پرست نہیں‘ ہر جینوئن سیاسی ورکر (جو بہت کم رہ گیا ہے) کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ان وارننگ نما معروضات پر انتہائی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ
1۔ اگر نواز شریف قوم کو اس سوال کا جواب دے دیں کہ میثاق جمہوریت کی شق 3 کی ذیلی شق A اور B میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے بارے میں کیا کہا گیا ہے تو ایم کیو ایم بھی میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کے لئے ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔
2۔ اگر جواب نہ دے سکیں تو موجودہ حالات میں ان کا اخلاقی فرض ہے کہ لانگ مارچ میں شرکت کے فیصلہ پر نظرثانی کریں۔
3۔ حکومت کے خلاف احتجاج ضرور کریں لیکن ایسا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں جس سے ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو اور ملک دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچے۔ ملکی صورتحال کا تقاضا ہے کہ سڑکوں کی بجائے ایوانوں میں احتجاج کریں۔
4۔ نازک ترین ملکی صورتحال کی وجہ سے ہی ہم نے وزارتوں کی تعداد کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور پارٹی مفاد کو ملک اور جمہوریت کے مفاد پر قربان کر دیا تاکہ استحکام کی فضا میں مسلح افواج اور قومی سلامتی کے دیگر ادارے دہشت گردی جیسے عفریتوں سے نمٹ کر حکومتی رٹ کو یقینی بنا سکیں۔
قائد تحریک اگر میثاق جمہوریت کا بغور جائزہ لیں تو ان کی طرف سے اٹھائے گئے پہلے سوال میں ہی وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے موقف کو غلط پائیں گے۔ جناب الطاف حسین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میثاق جمہوریت کی شق 3 کی ذیلی شق A نئے ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو وضع کرتی ہے جبکہ شق 3 کی ذیلی شقB کا تعلق پہلے سے تعینات شدہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے پی سی او حلف کے بارے میں ہے۔ اس یاددہانی کے ساتھ کہ میثاق جمہوریت پر مئی 2006ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے دستخط کئے اس کی شق 3 کی ذیلی شق B کا متن یہ ہے (b) No Judge shall take oath under any provisionel constitutionel order or any other oath that is contradictory to the exect Language of the orignel oath prescribed in the constitution of 1973.“اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہو گا کہ کوئی جج آئندہ پی سی اوکے تحت حلف نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی کوئی جج ایسا حلف اٹھائے گا جس کی زبان آئین میں دیئے گئے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لئے موجود حلف کی زبان سے متصادم ہو۔ یہ شق B بالکل صاف اور واشگاف انداز میں اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کا کوئی بھی جج آئندہ (میثاق جمہوریت کے آنے کے بعد یعنی May-2006 کے بعد) پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھائے گا۔ لیکن بعد میں جو ہوا ہم سب نے دیکھا الطاف بھائی اور ان کی پارٹی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں بشمول موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا ساتھ دیا اور پی سی اوکے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے اور میثاق جمہوریت پر عمل کرنے والے ججوں بشمول معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مخالفت کی جو اب بھی جاری ہے۔ شق 3 کی ذیلی شق B یا میثاق جمہوریت کی کسی دوسری شق میں کوئی ایسی بات موجود نہیں جو یہ کہتی ہو کہ میثاق جمہوریت سے پہلے پی سی او پر حلف اٹھانے والے اعلیٰ عدلیہ کے جج، جج نہیں رہ سکتے۔ میثاق جمہوریت کی شق 3کی ذیلی شق A کو جب ہم پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ذیلی شق A نو نکات پر مشتمل ہے جس میں اعلیٰ عدالتوں کیلئے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ اس ذیلی شق A کا موجودہ ججوں سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ لوگ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عام لوگوں میں کنفیویژن پیدا کرنے کیلئے شق 3 کی ذیلی شق A(i) کی اس انداز میں تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کو متنازعہ بنایا جاسکے۔ شق 3(a) اور 3a(i) کے مطابق ”3(a) The recommendation for appointment of Judges to superior Judiciary shall be formulated through a commission, which shall comprise of the following (i) the chairman shall be a chief Justice, who has never previously taken oath under the pco“
اس شق کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کی سفارشات ایک کمیشن کے ذریعے کی جائیں گی۔ یہ کمیشن مندرجہ ذیل لوگوں پر مشتمل ہوگا(i) اس کمیشن کا چیئرمین ایک ایسا چیف جسٹس ہوگا جس نے پہلے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو“ اگر اس شق کو غور سے پڑھیں تو بڑے صاف انداز میں آپ دیکھیں گے کہ "a chief Justice" (ایک چیف جسٹس) لکھا ہوا ہے میثاق جمہوریت کو تحریر کرنے والوں نے سوچ سمجھ کے بعد یہاں The Chief Justice of Pakistan نہیں لکھا بلکہ cheif Justice a لکھا کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس اور آئندہ آنے والے کئی چیف جسٹس وہ حضرات ہیں جنہوں نے 2001 میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ کوئی ایک چیف جسٹس (a chief Justice) لکھ کر یہ کہا گیا جس نے پہلے کبھی پی سی اوکے تحت حلف نہ لیا ہو۔ اس شق کے مطابق چیف جسٹس افتخار اس کمیشن کے چیئرمین نہیں بن سکتے جس نے نئے ججوں کی تعیناتی کرنے کیلئے سفارشات مرتب کرنی ہیں۔ اس کیلئے ماضی کے کسی بھی ایسے چیف جسٹس جس نے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا اس کو اس کمیشن کا چیئرمین بنایا جا سکتا ہے۔
میثاق جمہوریت کی متعلقہ شقوں کو پڑھنے کے بعد یہ واضع ہو گیا کہ جسٹس افتخار اور ان جج صاحبان جنہوں نے جنرل مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا انہوں نے میثاق جمہوریت پر مکمل عمل کیا جبکہ دوسرے جج اس دستاویز کی کھلی اور کلی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ اس صورتحال میں الطاف حسین صاحب کیلئے اب سوال اٹھتا ہے کہ آیا اب وہ اپنی ہی معروضات کی روشنی میں جسٹس افتخار اور 2 نومبر2007 ء کی عدلیہ کی بحالی کے مخالفت چھوڑ کر ان کے حق میں آواز اٹھائیں گے کیونکہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں ایم کیو ایم اور باقی حکومتی پارٹیوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی نومبر2007 ء میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی حمایت پر اس دستاویز کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کیاایم کیو ایم ، پی پی پی وغیرہ اب اس غلطی کا تدارک کریں گے اور ان قوتوں کا ساتھ دیں گے جو میثاق جمہوریت کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں اور 9 مارچ کے لانگ مارچ میں حصہ لے رہی ہیں۔ آیا لانگ مارچ غیرجمہوری عمل ہے اور کیا عوام کا آزاد اور خودمختار عدلیہ کیلئے پرامن احتجاج کرنا غیرآئینی اقدام ہے۔ کیا الطاف حسین صاحب اور ان کی پارٹی جنرل مشرف کے مارشل لاء کا حصہ بننے اور اس حکومت کے غیرآئینی اقدامات پر قوم سے معافی مانگ کر لانگ مارچ میں حصہ لے گی۔ آخر میں محترم حسن نثار صاحب سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ بھی میثاق جمہوریت کی روشنی میں جناب الطاف حسین کی معروضات پر اپنا تجزیہ پیش کریں گے۔ شاید اس بحث سے ہم ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں۔
تازہ ترین