• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امتحانات میں نقل کا رجحان جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ یقیناً تشویشناک ہے اس کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کاپی کلچر کی روک تھام سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے ادارے (سی ٹی ڈی) کو ہدایت کی ہے کہ تمام نقل مافیا گروہوں کو گرفتار کیا جائے اور متعلقہ افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آپ کاپی کلچر کو روک نہیں سکتے تو امتحانات کرانے کی ضرورت نہیں طلبا کو ویسے ہی پاس کردیں۔ وزیراعلیٰ کا یہ بیان حالات میں بہتری کی خواہش کی نوید تو ضرور دیتا ہے مگر اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی مسئلے پر صورتحال کے سنگین ہونے کا انتظار کرنے کی روایت اب بھی باقی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ نقل کیوں کی جاتی ہے اگر تعلیم کا معیار اچھا ہو تو کوئی طالب علم نقل کیوں کرے گا۔ تلخ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ہاں اساتذہ کی زیادہ تر تقرریاں سفارش، سیاسی وابستگی اور رشوتوں کی بنیاد پر کی جاتی ہیں بعض تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ کی تقرریاں کی گئیں جن کا تعلیم اور تدریس سے دور کا بھی واسط نہیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں اور مراعات بہت کم ہیں۔ نقل کلچر کا شکار صرف صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ اس خرابی سے پورا ملک دوچار ہے۔ اس کا تعلق صرف سرکاری اسکولوں سے نہیں بلکہ بعض زیادہ فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے نتائج کو بہتر دکھانے کے لئے کوشش کرکے اپنے من پسند امتحانی مراکز کا تعین کرتے ہیں اور امتحان دینے والے طلبا کو نقل میں عملی مدد کا بندوبست بھی کررہے ہیں جس سے ان کے نمبرز زیادہ آجاتے ہیں مگر وہ اہلیت کے فقدان کے باعث ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس لئے تعلیمی اداروں کو تجارت کی بنیاد پر چلانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور فروغ تعلیم کے لئے اساتذہ کے تقرر میں تعلیمی قابلیت اور درس و تدریس کے تجربے کو اہمیت دی جانی چاہئے تاکہ طالب علموں میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ انہیں علم حاصل کرنے کے لئے نقل نہیں بلکہ اساتذہ کی مدد حاصل ہے۔

.
تازہ ترین