• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ پر دباؤ بڑھانے کا وقت,,,,ملک الطاف حسین

جنرل مشرف سے لے کر صدر زرداری تک پاک امریکہ تعلقات میں جس طرح امریکی دباؤ اور یکطرفہ مفادات کو برداشت کیا جاتا رہا ہے اگر ہم اسے ایک مجبوری یا نااہلی تصور کرتے ہوئے قبول کر بھی لیں تو بھی ہمارے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں سابقہ غلطیوں کو دہرانے کی کوشش نہ کریں اور ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ جواب امریکہ کے جارحانہ عزائم اور معاشی استحکام کو سپورٹ نہیں کرتے۔ ہمیں اس صورت حال کا جس میں چین، روس، ایران، ترکی اور سعودی عرب سمیت اسلامی دنیا امریکی قیادت کے عالمی علاقائی کردار سے مطمئن نظر نہیں آتی ہمیں پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ علاوہ ازیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے عوام کا 18 فروری کا بھاری مینڈیٹ درحقیقت امریکی مداخلت اور دباؤ کے خلاف ان کا ایک بھرپور فیصلہ تھا جبکہ بعدازاں پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد میں بھی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے اور پاکستان کے اندر ڈورن حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم یہ افسوسناک صورت حال ہے کہ اب تک حکومت کا اختیار اور اپوزیشن کا کردار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) عوام کی خواہشات اور پاکستان کے ”مستقل مفادات“ کے مطابق ادا کرنے میں مسلسل ناکام ہیں، امریکی دباؤ سے نکلنے کے لیے آزاد عدلیہ بھی ضروری تھی۔ بااختیار پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ ہی کے ذریعے امریکی دباؤ کو بآسانی روکا جاسکتا ہے۔ مزید امریکی دباؤ کے خلاف پاکستانی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے حالیہ دو اہم واقعات بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، امریکہ نے جس طرح سے ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی کے عدالتی فیصلے اور ”نفاذ عدل معاہدے“ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس پر بھی پاکستانی عوام میں سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔ ان حالات میں قوم کا اتحاد ہر قسم کی طاقت سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہے، صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو پکارا جائے اور اللہ رب العزت پر بھروسہ رکھا جائے کہ جس کی طاقت سب پر غالب اور جس کی مدد سب سے بہتر ہے۔
ہمیں علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال کا درست تجزیہ کرتے ہوئے اب صرف یہ فیصلہ کرنا ناکافی ہوگا کہ امریکی دباؤ اور مداخلت سے نجات حاصل کی جائے۔ اوباما انتظامیہ محض بلیک میلنگ اور بھبھکیوں سے کام لے رہی ہے اس کے وسائل اور حالات اب کوئی نیا محاذ کھولنے کی اجازت نہیں دیتے وہ افغانستان کی جنگ ہار چکا ہے اور اب اس ہاری ہوئی جنگ کو پاکستان کے ذریعے جتنا چاہتا ہے بعدازاں پاکستان کو بھارت کے ذریعے نقصان پہچانا چاہتا ہے۔ ممبئی حملوں کو 9/11 سے ملانے کا مطلب یہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے خلاف دو مختلف سمتوں سے لڑی جانے والی جنگ کی کمانڈ مشترکہ ہوگی کہ ”غیر نیٹو اتحادی“کی ٹوپی تو پاکستان کی سر پر رکھ دی گئی ہے لیکن تلوار بھارت کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے لہٰذا یہ وقت جو امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، بھارت اور نیٹو کے حملہ آوروں کو سپورٹ نہیں دے رہا اس کا ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے انتہائی تدبر، دانشمندی، جرأت اور بہترین سفارتکاری کے ذریعے ہمیں ایسی پالیسی ترتیب دینا ہوگی کہ جس کا لازمی نتیجہ خطے کے استحکام اور عالمی امن کے حق میں نکلے۔ امریکہ کی بالادستی اور دوسروں کے وسائل لوٹنے کی پالیسی کو نہ صرف دھچکا لگے بلکہ امریکی بحری بیڑے ہمیشہ کے لیے نیویارک کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوجائیں اور اس کے ڈرون اور ایف 16 واپس نیگروں میں چلے جائیں کیونکہ امریکی افواج اب اس قابل نہیں رہی کہ کسی ملک میں ان کی میزبانی کی جائے، دنیا کی اس وقت کی ظالم اور جارح افواج کے انخلاء کا مطالبہ ہی عالمی امن سمیت پاکستان کی سلامتی، افغانستان اور عراق کی آزادی سمیت مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر، چیچنیا کے حل، بیت المقدس کی بازیابی اور بابری مسجد کے دوبارہ تعمیر کا سبب بن سکتا ہے لہٰذا وقت کی اس آواز کو سن لینا چاہئے کہ امریکی دباؤ کو قبول کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور امریکہ پر دباؤ بڑھانے کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت کے صحیح استعمال کا موقع اور اختیار پاکستان کو حاصل ہے۔

تازہ ترین