یوں تو ساری قوم ہی ”سٹیک ہولڈر“ ہے لیکن فرنٹ لائن سٹیک ہولڈرز میں سے ایک یعنی ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ…
”یہ وقت احتجاج کا نہیں گھر میں لگی آگ بجھانے کا ہے“۔
”پیپلز پارٹی نے بلوچستان اور ن لیگ نے پنجاب میں ہمارے مینڈیٹ کی توہین کی لیکن اب ذاتی اَنا نہیں ملکی بقا کا سوال ہے۔ بحران سے نکلنے کے لئے وزیراعظم اے پی سی بلائیں کیونکہ اس وقت سوال مقبولیت اور مینڈیٹ کا نہیں، قومی سلامتی کا ہے۔ یہ وقت لینے کا نہیں صرف دینے اور دینے کاہے“۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان پیدا شدہ بحران کے حوالہ سے بھی چودھری صاحب نے خوب کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اس بحران کا ذمہ دار کون ہے، تاہم ایک بات طے ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جب دو افراد یا پارٹیوں کے درمیان کوئی بحران جنم لیتا ہے تو ذمہ دار دونوں ہی ہوتے ہیں کسی کا قصور کم ہو یا زیادہ لیکن خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
چودھری شجاعت نے کہا… ”وقت احتجاج کا نہیں، دھرتی کی لاج رکھنے کا ہے۔ اے پی سی کا انعقاد کریں جس میں تمام پارلیمانی پارٹیاں و دیگر سرکردہ راہنماؤں کو بھی شامل کیا جائے۔ ہم تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر دل و جان سے حاضر ہیں کہ پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکیں“۔
میں حیران ہوں کہ رئیسانی سے لے کر اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن تک سب مفاہمت کے لئے بھاگے پھر رہے ہیں۔ چند روز پہلے میڈیا سے ملاقات کے دوران شہباز شریف کی زبان بھی ایسی ہی تھی اور اب چودھری شجاعت تک نے پل بننے کی پیشکش کر دی ہے حالانکہ و ہ دونوں کے ڈسے ہوئے ہیں اور پی پی پی ن لیگ مفاہمت بظاہر ان کے وارے میں بھی نہیں ہونی چاہئے لیکن اس کے باوجود اگر وہ اس کارخیر کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟
وہ کون سی قوت یا قوتیں ہیں جن کی وجہ سے مفاہمت کی ڈولتی ڈگمگاتی کشتی کسی کنارے نہیں لگ رہی؟ یا یہ کس کی نیت کا کھوٹ ہے جو قوم کا پینڈا کھوٹا کر رہا ہے؟ چودھری شجاعت کو مفاہمت کے حق میں آخری آدمی ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہ اس مخالفت اور مخاصمت کے سب سے بڑے ”بینی فشری“ ہوسکتے تھے لیکن اگر وہ بھی مفاہمت کے لئے ہر کسی کی ”منت“ پر اتر آئے ہیں تو صرف اسی بات سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ سیاست سے صحافت تک… درباریوں سے دانشوروں تک ہر کوئی مفاہمت کا راگ الاپ رہا ہے لیکن آگ ہے کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ بجھنا کیا… پھیلتی جا رہی ہے۔ ا نتہاء یہ کہ خود صدر زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو بظاہر مفاہمت کی ضرورت کا اعتراف نہ کرتا ہو لیکن زمینی حقائق اور اعمال کسی اور قسم کا اعلان کررہے ہیں تو اسے اپنی اجتماعی بدبختی کے سوا اور کیا سمجھا جائے؟
چودھری شجاعت کا یہ جملہ بہت ہی بروقت اور قابل غور ہے کہ ”خدانخواستہ گھر ہی نہ رہا تو احتجاج کیسا اور اختلاف کیا“؟پاکستان اک ایسی کشتی کی مانند دکھائی دیتاہے جو اپنے مخالف پانیوں میں گھری ہوئی …بھنور در بھنور کی زد میں تو ہے ہی لیکن اس کی سواریاں اور ملاح بھی موج میلے میں مصروف ہیں یا کم از کم سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر۔
مفاہمت… مفاہمت…مفاہمت کے اتنے شور میں بھی اس کا عنقا ہونا اس خدشہ، وہم اور وسوسہ کو بھی جنم دیتا ہے کہ بظاہر مفاہمت کا ورد کرنے والے بدترین قسم کی منافقت کا مظاہرہ تو نہیں کر رہے جسے محاورے کی زبان میں ”بغل میں چھری اور منہ میں رام رام“ کہا جاتا ہے۔ گفتگو کی حد تک مفاہمت سے معطر ملکی فضا میں مفاہمت کے حوالہ سے ہی مجھے عدیم ہاشمی مرحوم کا یہ شعر بھی مسلسل ہانٹ کر رہا ہے۔
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
اس ملک کو گلوبل ہی نہیں… لوکل بلاؤں کا بھی سامنا ہے جن کی اناؤں کا پیٹ اس برتن کی طرح کبھی نہیں بھرتا جس کے پیندے میں سوراخ ہوں اور اگر یہ غلط ہے تو ان سب کو چودھری شجاعت کی اپیل اور آفر پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔