• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملالہ یوسف زئی کا نام کون نہیں جانتا۔ لیکن ہمارے بہت سے لوگ ان کے بارے میں بس سنی سنائی افواہوں پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ وہ خود کیا سوچتی ہیں؟ آج کل کیا کر رہی ہیں ؟ اور پاکستان کے بچوں کےلئے ان کے کیا اقدامات ہیں؟ میں آپ کے لئے فضل راہی کے ساتھ ان کے ایک انٹرویو کے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔
وہ کہتی ہیں ’’میرے خیال میں جب ملکوں کی ترقی کی بات کی جاتی ہے تو اس کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو ملک کا سب سے بڑا اور اہم اثاثہ سمجھا جائے۔ لوگ ہی ملک کا سب سے اہم کیپٹل ہوتے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کا خیال رکھا جاتا ہے، ورکر کے رائٹس ہیں، بچوں کے رائٹس ہیں، بڑوں کے رائٹس ہیں اور عورتوں کے رائٹس ہیں، غرض سب کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ریاست کا نظام اس بات پہ استوار ہوتا ہے کہ آپ بلا تفریق لوگوں کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے مسائل اور ضروریات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ پھر حکومت لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے، وہ لوگوں کے لئے ایک نظام چلاتی ہے، وہ ٹیکس اکٹھا کرتی ہے، لوگوں کی فلاح و بہبود پر اسے خرچ کرتی ہے اور اس طرح ریاست کے دیگر اخراجات ہوتے ہیں۔ اسکول اور اسپتال بنائے جاتے ہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرے کا یہ سسٹم متوازن انداز میں چلتا رہے تو آپ کو لوگوں کا خیال رکھنا پڑے گا اوراس اَمر کو یقینی بنانا پڑے گا کہ ملک میں تمام لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ یہاں پہ ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ بجلی چلی گئی ہے، پانی نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے جب ہم سوچتے ہیں، اگر آپ کے گھر میں سات آٹھ گھنٹے بجلی نہ ہو، صاف پانی کی سہولت نہ ہو، معیاری تعلیم کے مواقع نہ ملیں تو پھر کیا فائدہ۔ ‘‘
ملالہ فنڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’’ ملالہ فنڈ کے ذریعے زیادہ توجہ پاکستان پر دی جا رہی ہے اور وہاں پر ہی زیادہ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ رفیوجی چلڈرن (پناہ گزین بچوں) کی تعلیم ہے، تو ان دونوں پہ ہم بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اگر میں ملالہ فنڈ کے کام کو تقسیم کروں تو ہمارے پاس تین چیزیں ہیں جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ پہلی چیز ایڈوکیسی اور کمپیننگ ہے تاکہ ہم تعلیم کی کمپین کو دنیا کے لیڈرز تک پہنچائیں۔ اس کے علاوہ ہماری ترجیح پناہ گزین بچوں کی تعلیم ہے جس کے لئے میں نے بہت ساری کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بات کی ہے۔ اس مقصد کے لئے میں نے ڈونر ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اس مد میں کافی رقم بھی خرچ کی ہے۔ لبنان اور اردن میں شام کے پناہ گزین بچوں کے لئے ہم نے اسکول بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ نائیجیریا میں بھی ہم نے ان بچوں کے لئے کام کیا ہے جو بوکو حرام کے چنگل سے فرار ہوئے تھے۔ پاکستان میں ہم نے سب سے زیادہ رقم سوات اور شانگلہ میں خرچ کی ہے۔
جب مجھے نوبیل پیس پرائز ملا تو اس ایوارڈ میں ملنے والی ساری رقم ہم نے شانگلہ کے لئے مختص کردی۔ اس کے علاوہ بھی ملالہ فنڈ سے مزید رقم لے کر اس سے ضلع شانگلہ میں ایک بڑا تعلیمی پروجیکٹ شروع کیا جس میں ہم شانگلہ کی بچیوں کو تعلیم دیں گے۔ یہ پراجیکٹ ہم ایک مقامی ادارہ ’’خپل کور فاؤنڈیشن‘‘کے ذریعے کرا رہے ہیں۔ اس پہ باقاعدہ کام شروع ہوچکا ہے، بنیادیں تعمیر ہوئی ہیں، دیواریں بن گئی ہیں اور اس کی پہلی چھت مکمل ہوچکی ہے۔ ان شاء اللہ اگلے سال مارچ میں اس میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
میں دو تین باتیں واضح کرنا چاہوں گی۔ وہ یہ کہ لوگ ملالہ کو کچھ اس طرح سمجھتے ہیں جیسے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے اور اس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جس کو گھماتے ہوئے وہ کہے کہ پاکستان میں 300 اسکول بن جائیں اور وہ فوراً بن جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اسکول بنانے پر بھی بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اس کے لئے پہلے زمین لینی پڑتی ہے، پھر اس کو بنانا پڑتا ہے اور اس کے بعد اس کو ریگولیٹ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور جب آپ فری تعلیم کی بات کرتے ہیں تو یہ میرے دل کی آواز ہے اور میں کوشش کرتی ہوں کہ جتنے بھی ہمارے ورلڈ لیڈرز ہیں، پاکستان کے لیڈرز ہیں یا ہمارے لوکل لیڈرز ہیں، ان سب سے یہ کہوں گی کہ آپ لوگوں سے ٹیکس کے جو پیسے لیتے ہیں، آپ اس کو لوگوں پر ہی خرچ کریں، آپ اس سے تعلیمی ادارے بنائیں، آپ یہ یقینی بنائیں کہ آپ لوگوں پر انویسٹ کریں اور اس میں جو سب سے بڑی انویسٹمنٹ ہے، وہ تعلیم ہے۔ تو یہی میرا کام ہے۔ اس کے علاوہ ملالہ فنڈ کے ذریعے ہمیں جتنی بھی ڈونیشنز ملتی ہیں، ان سے ہم اسکول بناتے ہیں۔ مجھے مختلف ایوارڈز کے جو پیسے ملے ہیں، وہ میں نے تعلیم کو دیئے ہیں۔ ایک ایوارڈ کے پیسے میں نے فلسطین میں بچوں کو دیئے ہیں، نوبیل پیس پرائز کی رقم شانگلہ میں لگائی ہے، باقی جتنی ڈونیشنز ہیں، ان سے ہم نے ’’گل مکئی نیٹ ورک‘‘ لانچ کیا ہے جس کے ذریعے ہم لوکل لیڈرز کو ایمپاور کرتے ہیں۔‘‘
گل مکئی نیٹ ورک کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمارے پاس دس لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ چا ہتے ہیں کہ ہم ان کا نام لیں لیکن کچھ لوگ سیکورٹی کے حوالے سے خود کو محفوظ نہیں سمجھتے، اس لئے ہم ان کا نام ظاہر نہیں کرتے۔ اس کے لئے ہم نے کچھ مخصوص علاقوں کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستان، افغانستان،شام، ترکی اورمشرق وسطیٰ کا علاقہ۔ میں اور میرے والد جب تعلیم کے لئے کچھ کرناچاہتے تھے تو اس وقت ہم صرف دو تھے لیکن ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو اپنی کمیونٹی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور جو لوکل ایڈووکیسی کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔
یہ سوال کہ آپ کے حوالے سے میڈیا میں بڑے نازیبا الزامات لگائے جا رہے ہیں جیسے ملالہ یہودیوں کی ایجنٹ ہیں، مغرب کی پروردہ ہیں، وہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں ضرور یہ کہنا چاہوں گی کہ یہ بالکل ایک خیالی بات ہے کہ ہم امریکہ یا یہودیوں کے ایجنٹ ہیں کیونکہ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
میں نے ایک موقع پہ کہا تھا کہ ٹرمپ کو اردن، شام یا ترکی میں ایک رفیوجی کیمپ کا دورہ کرنا چاہئے، وہ دیکھیں گے کہ ایک رفیوجی کیمپ میں زندگی کیسی ہوتی ہے، وہ لوگ جو جنگوں کی وجہ سے بے گھر ہوجاتے ہیں، وہ ایک بہت مشکل زندگی گزارتے ہیں اور اس کو ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنما سمجھ نہیں پاتے۔ اس کے بعد اگر لوگ تھوڑا سا سوچیں، غور کریں تو انہیں خود ہی سمجھ آجائے گا کہ یورپ، امریکہ یا یہودیوں کے اصل ایجنٹ کون ہیں؟


.
تازہ ترین