• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے ڈان لیکس ہنگامہ خیز طریقے سے ہی سہی لیکن حتمی طور پر اختتام پذیر ہوگئیں۔ یہ تنازع کچھ مثبت عوامل سامنے لانے کاموجب بھی بنا ۔ قومی فیصلہ سازی کا عمل ، جو ہمارے ہاں بہترین ادوار میں بھی کبھی مثالی نہیںرہا، ایک کہانی کی اشاعت جیسے کسی معمولی اور بے کار تنازع کے ہاتھوں یرغمال بننے سے بچ گیا۔
اب کم از کم ایک الجھن کے دور ہونے سے حکومت اور فوج کو تین محاذوں کی خطرناک صورت ِحال پر بات کرنے کا موقع ملے گا۔ افغانستان، انڈیا اور ایران کے ساتھ تشویش ناک سرحدی صورت ِحال اپنی جگہ پر ، سعودی عرب کی قیادت میں وجود میں آنے اور تیزی سے ایران مخالف جہت اختیار کرنے والے ملٹری الائنس پر فوری توجہ دینے اور اسے بہت مہارت سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے ۔ مذکورہ الائنس کے لئے فوجی اور مشاورتی وسائل مہیا کرنے کا عزم کرنے والے اسلام آباد کے پاس ہر گزرتے دن کے ساتھ آپشنز کم ہوتے جارہے ہیں، خاص طور پر جب واشنگٹن اس الائنس کے ایجنڈے میں اپنے مخصوص منصوبے، جن کا مقصد کچھ ممالک کو محدود کرنا ہے ، شامل کررہا ہے ۔
اس کے بعد چین ہے ۔ بیجنگ کی پاکستان کے ساتھ معاشی وابستگی کا دارومدار اسلام آبادکے داخلی استحکام اور اس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے توازن پر ہے ۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ فوج اور سویلین حکومت مل کرکام کریں۔ پاک چین مفادات کے اشتراک کا سب سے بڑا دشمن انتشار، افراتفری اور شورش پسند ی ہے ۔ دونوں میں سے کوئی بھی ملک، خاص طور پر پاکستان، اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ داخلی طور پر کرم اور دیگر ایجنسیوں میںچھوٹے پیمانے پر لیکن بہت اہمیت کے حامل آپریشنز اور جنرل راحیل شریف دور کے ادھورے چھوڑے گئے کام کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پالیسی سازی کی تمام سطحوں پر ہموار فعالیت درکار ہے ۔ آپریشن رد الفساد کا موثر پن اور ملک کے طویل المدت مفادات کو محفوظ بنانے والے نیشنل ایکشن پلان کی مرکزی اہمیت کا تعلق فوجی قیادت اور سویلینز کے درمیان تصورات کی یکسانیت پر ہے ۔ جمعے کومستونگ، بلوچستان میں جے یو آئی (ف) کے رہنما کے قافلے پر حملہ پاکستان کے سامنے استحکام حاصل کرنے والے راستے کی پیچیدگی کی غمازی کرتا ہے ۔
معروضی انداز میں دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ یہ مثبت شواہد نواز شریف حکومت کے سیاسی مفادات سے لگّا کھاتے ہیں۔ انڈیا، افغانستان، ایران، واشنگٹن، خلیجی ممالک میں تنائو اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ یہ مسائل صاحبان ِ اقتدار کی ذات سے ماورا ہیں۔ ان مسائل کے سائے مستقبل تک دراز دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ یا مستقبل میں اقتدار سنبھالنے والی سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان عدم مطابقت، ٹکرائو یا توازن کا مکمل بگاڑ پاکستان کا برا چاہنے والوں کی شادمانی کا سامان کرے گا۔ چنانچہ سول ملٹری تعلقات میں تنائو میں نقصان صرف پاکستان کا ہوگا۔ وہ دھڑے عقل کے اندھے ہیں جو ڈان لیکس پر نواز شریف اور جنرل باجوہ کے درمیان مبازرت دیکھنے کے متمنی تھے۔ اُن کی لاعلمی ، یا منفی خواہش پاکستان کے تزویراتی مفادات کے لئے خطرناک ہے ۔
مثبت پیش رفت ایک طرف ، یہ تنازع اور گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اس سے پیدا ہونے والی بدمزگی کے کچھ اور بھی پہلو ہیں جنہیں صرف اس لئے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معاملہ بہرکیف حل کرلیا گیا ہے ۔ ایک تشویش ناک پہلو ریاستی اداروں( نہ کہ افراد)کے درمیان ابلاغ ہے ۔ طرفین کے ایک صفحے پر ہونے کے تمام تر بلند آہنگ بیانیے کے باوجود باقاعدہ اور منظم انداز میں ابلاغ کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی بڑ ٰی حد تک ذمہ داری شریف حکومت کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے جس کے پاس ریاستی ابلاغ کے ادارے ہیں، اور وہ کوئی نوآموز نہیںبلکہ تیسری مدت کے لئے اقتدار میں ہے۔ اس کا سات آرمی چیفس سے واسطہ پڑا ہے ۔ اس کی سیاسی قیادت نے ضیا دور میں سیاسی سبق حاصل کیا۔اسے فوج کے معاملہ طے کرنے اور فوج کا موقف شامل کرکے فیصلہ سازی کا عمل آگے بڑھانا چاہیے ۔
ڈان لیکس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شریف حکومت نے فوج کے ساتھ بطور ادارہ رابطہ رکھنے کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ یہ جانتی ہے کہ باہمی اعتماد کی تہہ ابھی بہت پتلی ہے ۔ اس کی پہلی مرضی تھی کہ آرمی کی اعلیٰ کمان کو ہر حال میں خوش رکھا جائے ،دوسری مرضی یہ تھی کہ خود کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے واویلا کیا جائے ۔ تاہم پاکستان جیسی پیچیدہ تاریخ رکھنے والے ممالک میں یہ بیل کو سرخ کپڑا دکھانے کے مترادف ہوتا ہے ۔اگر ایک بحران ٹل بھی گیا تو ضروری نہیں کہ دوسرا بھی ٹل جائے گا، یا اس کے آنے میں کافی دیر ہوگی۔
جہاں تک فوج کا تعلق ہے توبطور ادارہ اس کے ابلاغ کی فعالیت بھی کم اہمیت کی حامل نہیں۔ کئی برسوں سے یہ صرف یک طرفہ طور پر اپنا موقف پیش کرتی ہے ۔ تاثر ہےکہ اس نے سویلینز حکومتوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ سویلینز کی نااہلی کی اکثر اوقات گمراہ کن کہانی نے بھی ان کے بارے میں توہین آمیز تاثر گہرا کرنے میں مدد کی ہے ۔ اس سے افسران کو اپنے احساس برتری کا زعم رہتا ہے ۔ ہم نے اس پالیسی سے کوئی قومی فائدہ سامنے آتے نہیں دیکھا۔اس کی بجائے، اس نے محدود ذاتی مفادات کو آگے بڑھایا ہے ، جیسا کہ جنرل راحیل شریف کو قوم کا نجات دہندہ قرار دیا گیا۔ اس امیج نے اُنہیں آخر کار عرب الائنس میں ایک پرکشش ملازمت حاصل کرنے میں مدد دی۔ اس کے علاوہ اس پالیسی کی وجہ سے فوج اور سویلینز کے درمیان بلاوجہ رسہ کشی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض اوقات صورت ِحال قابوسے باہر ہوجاتی ہے ،اور اسے طاقت سے بڑھ کر بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے ۔ بجٹ مختص کرنے سے لے کر ڈیفنس چیلنجز پر بات کرنے کے لئے ہونے والی میٹنگز کی سامنے آنے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ کمان سویلینز کے سامنے خود کو بہتر سمجھتی ہے ۔ یہ مناظر پریشان کن دکھائی دیتے ہیں۔ قومی توانائی کو ایسے معمولی مقاصد پر خرچ نہیں ہونا چاہیے ۔ ہماری فوج ایک خوفناک لڑاکا قوت ہے ۔ اس کے پیچھے قوم کی حمایت موجود ہے ، یہ وطن کے دفاع کے لئے ناگزیر ہے ۔ ان عوامل کی وجہ سے اسے میزپر نمایاں مقام ملتا ہے۔آئین کو مقدم گرداننے والوں کے سامنے ابھی کرنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ ابھی اُنھوں نے ایسے دلائل کو آگے بڑھانا ہے جو ایسے تاثر کی نفی کرسکیں جس کی بنیاد پر ہر حکومت کو فوج کی بالا دستی قبول کرنا پڑتی ہے ۔ اگر یہی اصل بات ہے تو پر مسئلہ کہاں ہے ؟طاقت کا برملا اظہار کیوں کیا جاتا ہے ؟ اس سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے ؟ایسا کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے کیا حاصل کرلیا؟اگر پاکستان کو ایک جدید ریاست کامقام حاصل کرنا ہے تو اداروں کے مابین رسہ کشی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ جب ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ سامنے آئی تو بہت سے سیاست دان اور میڈیا مین نے خوشی سے شادیانے بجانا شروع کردئیے ۔ بہت سوں نے مٹھائیاں بھی تقسیم کیں کہ سویلین حکومت کا اختتام اب دنوں کی بات ہے ۔ اس نے ایک طرح سے سونامی برپا کردیا ۔ آرمی چیف کی ’’جرات ‘‘ کو سات سلام پیش کیے گئے ۔ کہا گیا ہے وزیر ِاعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے ۔ لیکن پھر دس مئی آیا اور ہم معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔ فساد برپا نہ ہوا۔ اس کے بعد شادیانے بجانے والوں کے ہاں صف ماتم بچھ گئی ۔ ہم اس فسادی سوچ سے کس طرح جان چھڑائیں گے ؟



.
تازہ ترین