• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شورش زدہ بلوچستان میں نام نہاد سرمچار گروہوٖں کے ہاتھوں وقت بوقت غیر بلوچ محنت کشوں چاہے آبادکاروں کے قتل کے بعد حالیہ دنوں میں گوادر میں دس کے قریب محنت کشوں، جن میں کمسن بچے بھی شامل تھے، قتل کر دئیے گئے جس کی ذمہ داری بھی علاقے میں غیر ریاستی دہشت گردی و تخریب کاری میں ملوث گروپ بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کر لی ہے۔ مسکین ترین، نہتے، غیر جنگجو، سویلین مزدور پیشہ یہ نوشہرو فیروز اور تھر پارکر سندھ سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بچے جو اپنے گھر والوں کے لئے روزی روٹی کمانے گئے تھے، ان کی لاشیں یوم مادر کے عالمی دن اپنے گائوں اور گھروں کو آئیں۔ اس سے بڑھ کر بردلانہ کارروائی کیا ہو سکتی ہے! اپنی نامعلوم کمین گاہوں سے غیر ملکی نشریاتی اداروں یا سوشل میڈیا کو اپنی تصویر کے ساتھ انٹرویو دینے والے ڈاکٹر اللہ نذر اور اس کے نام نہاد چیتوں، گوریلوں جو خود کو بلوچ لبریشن آرمی کہلاتے ہیں نے دوسری بار سندھی مزدوروں کے خلاف انسان دشمن کارروائی کی ہے۔ یعنی کہ آزادی کیا لیں گے ’’ہم سے داد کی جوانی کی‘‘۔
اس سے قبل وہ سرائیکی اور پنجابی مزدوروں کے قتلوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ قتل کسی کا بھی ہواسے کرنے کو کوئی بھی کاز یا نظریہ بتایا جائے اس کا کو ئی بھی جواز نہیں بنتا۔ نہتے غیر مسلح شہری کا۔ مزدور کا کہ سپاہی کا۔ یا سیاسی مخالف کا۔ مزدور کا تو ویسے بھی کوئی دیس نہیں ہوتا۔ سندھ میں سندھیوں کی اکثریت میں بلوچ دہشت گردوں، علیحدگی پسند گروپ کی ایسی کارروائی پر انتہائی غم اور غصے کا اظہار دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو مل رہا ہے۔ غم اس کا بھی ہے کہ سندھ میں پی پی کی حکومت کی طرف سے ہنوز کسی بھی قسم کا ردعمل آہا ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی کارندہ ان مقتول سندھی مزدوروں کے سوگوار مفلوک الحال ترین خاندانوں کے پاس پہنچا۔ الٹا ان کے اور ان پر ماتم کرنیوالوں کے زخموں پر نمک پاشی یہ کی گئی کہ مقتولین کی میتوں کو ایمبولینسں تک مہیا نہیں گئی بلکہ مقامی انتظامیہ نے مقتولین کی میتیں بڑی بے حسی سے ٹریکٹر ٹرالیوں میں ان کے گھروں، ان کے گوٹھوں میں پہنچائیں۔ اب سندھ کے لوگ اس پر احتجاج بھی نہیں کرتے کیوں کہ اس حکومت سے اس سلسلے میں کیا شکوہ جو قلندر شہباز کےمزار میں دہشت گردی کے شکار ہونیوالوں کی لاشوں کی بے حرمتی دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح کن مقتولین کے اعضا سیہون کی گلیوں میں پڑے تھے۔ کچھ لاشوں کے بریدہ اعضا گندے پانی کے جوہڑ پر دھوئے گئے لیکن لوگ سندھ میں خاص طور پر بلوچ دہشت پسند علیحدگی پسند گروہوں پر سیخ پا نظر آتے ہیں۔
لیکن یہ بالکل واضح بات ہے اور واضح ہونی بھی چاہئے کہ جس طرح سندھ میں سندھی عوام اور سندھی تشدد پسند یا دہشت پسند علیحدگی پسند گروہ ایک چیز نہیں اس طرح بلوچ دہشت پسند علیحدگی پسند یا کوئی اس طرح کے گروہ اور عام بلوچ یا بلوچ عوام ایک چیز نہیں اور نہ ہی یہ بلوچوں کے نمائندئے ہیں۔ یہ کرائے کے قاتل گروہ ہیں۔ ایک سے زیادہ غیر ملکی ایجنسیوں کے پالے ہوئے گروہ اور گروپ۔
مانا کہ یہ بھی سچ ہے کہ بلوچ عوام کی اکثریت بہت سی ریاستی پالیسوں سے ناخوش ہے۔ سی پیک سے شاکی اور بدظن نظر آتی ہے۔ ان کے بڑے قد آور رہنما قتل کر دیئے گئے ہیں ان کے سینکڑوں جوان غائب ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ بلوچستان کا محض امن و امان کا مسئلہ نہیں، انسانی حقوق اور قومی حقوق کا مسئلہ ہے، وسائل کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل کا براہ راست تعلق عام مفلوک الحال بلوچ عوام سے ہے۔ جس کا مینڈیٹ عوام نے ان دہشت پسند جتھوں کو نہیں دیا ہے جو سرد جنگ کے زمانے والے نام اختیار کئے ہوئے ہیں ’’لبریشن آرمی‘‘لبریشن فرنٹ" وغیرہ۔ قدآور رہنما، قوم کے معززین وفاق پرست نواب بگٹی جیسے مار دئیے گئے۔ مری چل بسے۔ مینگل اپنی دھرتی پر محصور۔ تین خودسر باغی سردار۔ اختر جان مینگل پر آمر مشرف نے سترھویں صدی کے باغیوں کی طرح پنجرے میں کھڑا کر کے عدالت لگائی تھی پھر بھی وہ آخری صدا کے طور سپریم کورٹ گیا تھا۔ لیکن اب ان کی جگہ کون ہیں۔ وہ کوتاہ قد کریمنل جو بقول شخصے اپنے قد سے بڑی بندوق اٹھائے منہ پر کالی پگڑی کا ڈھاٹہ باندھے میڈیا کیلئے ماڈلنگ کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے گھر سے’’ناراض بلوچ‘‘ عرف نوابوں سرداروں کے بگڑے بچے جو ’’بلوچ آزادی کی جنگ‘‘ لندن، گلف، مانتی کارلو اور سوئٹزر لینڈ کے جوا گھروں اور پر تعیش ہوٹلوں، کلبوں میں لڑ رہے ہیں یا پھر ان میں سے کسی ناراض بلوچ نوجوان نے بلوچ جنگ سان فرانسیسکو کی اسکول پرنسپل کو ہراساں کر کے لڑی تھی۔ ان کے حال پوچھنے ہوں تو ماما قدیر بلوچ سے پوچھو۔
اور وہ غریب بلوچوں کی پڑھی لکھی اولاد، حساس فنکار، ادیب، سیاسی کارکن، صحافی، جو زندگی بچا کر، عقوبتیں جھیل کر، ٹارچر گھروں میں رہ کر یورپ اور دیگر ملکوں میں در بدر، خاک بسر، لٹوئنیا جیسے ملکوں تک میں ملیں گے۔ جنہیں ان کے لیڈر، زندگی اور تاریخ ٹھگ گئی۔ اب باپ کدھر، تو بھائی کدھر، بچے کدھر تو بہن کدھر۔
اسی طرح وہ کئی سندھی نوجوان قوم پرست بھی جو بلوچ علیحدگی پسندوں سے روابط کے شبہے میں یا پھر اپنے ناراض بلوچوں کے شریک جرم برادران لیڈروں کی طرف سے سندھ کو بلوچستان بنانے کے ’’ٹاسک‘‘ میں غائب کر کے مار دئیے گئے۔ بس لیڈروں کو لاشے چاہئے تھے، شہید سندھ اور بلوچ نام نہاد آزادی کے واسطے۔ پر آکسی جنگیں۔ اس سے غریب سندھی عوام نہ ہی بلوچ عوام کا کبھی واسطہ تھا۔ غریب کے بچے تو روزگار کی تلاش میں جنوبی سوڈان، افغانستان، وانا، وزیرستان تک پہنچے اور ان کی لاشیں سندھی بستیوں اور گوٹھوں کو پہنچیں۔ جیسے یہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے نوشہرو فیروز کے نوجوان سندھی مزدور۔

.
تازہ ترین