• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان سے ملحق وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) کے عوام گزشتہ سات دہائیوں سے ایک غیرمنضبط نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، تاہم اب ان میں یہ احساس شدت کیساتھ اُبھر رہا ہے کہ انہیں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح آئینی حقوق ملنے چاہئیں۔فاٹا سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اور ایک اعلیٰ پارلیمانی کمیٹی نے اس کے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش بھی کی ہےمگر یہ معاملہ ایک بار پھر موخر ہو گیا ہےکیونکہ جے یو آئی (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم نواز شریف سے بیرون ملک رابطہ کر کے اُنہیں اِس بات پر قائل کیا ہے کہ فاٹا انضمام سے متعلق کارروائی روکی جائے جس پر وزیر اعظم نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اُن کی وطن واپسی تک فاٹا کے بارے میں قانون سازی نہ کی جائے۔اس پر فاٹا کے کئی ارکان نے اعتراض بھی کیا ہے ۔فاٹا کا علاقہ پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا جاتا ہے۔فاٹا کے انضمام کیلئےآئین میں 30ویں ترمیم اور قبائلی علاقہ جات رواج بل2017پیر کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھاجس پر قائمہ کمیٹی نے جمعرات کو رپورٹ دینا تھی۔قومی اسمبلی کا رواں اجلاس ملتوی کیا جا رہا ہے جس کے بعد بجٹ اجلاس ہو گا جس میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہو سکتی۔فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے مزید تاخیر مسائل کی سنگینی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔حکومت کو مزید کسی لیت و لعل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سب سیاسی جماعتوں کو ملا کر فاٹا کے انضمام کا مسئلہ حل کرنا چاہئے۔ اگر فاٹا کے عوام کے پی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اُن کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں قومی دھارے میں شامل کیا جا نا چاہئےاور ان کے لئے تمام بنیادی حقوق اور سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے جوملک کے دوسرے علاقوں کو حاصل ہیںتاکہ وہ بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

.
تازہ ترین