• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ روز بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف بھارت کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے کے حتمی فیصلے تک سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا اور دائرہ اختیار سے متعلق پاکستان کا اعتراض بھی مسترد کردیا ہے ۔ اس فیصلے پرپاکستان کے اٹارنی جنرل آفس سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری حکم میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی کی سزا کے خلاف حکم امتناع جاری کیا ہے جو کیس کے میرٹس اور دائرہ اختیار سے مکمل طور پر ہٹ کر ہے۔عبوری اقدام ایک عدالتی طریق کار ہے جو عدالت کو مقدمے کا تفصیل سے جائزہ لینے کے قابل بناتا ہے۔اس اقدام کا کیس کے حتمی فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔پاکستان نے مقدمہ کی سماعت میں عالمی عدالت انصاف کے احترام اور اس معاملے میں کورٹ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کے لیے شمولیت اختیار کی ہے جو عدم شمولیت کی صورت میں ممکن نہیں تھا۔دریں اثنا ء اٹارنی جنرل نے میڈیا سے بات چیت میں واضح کیا کہ عالمی عدالت کے عبوری حکم امتناع کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں، ہم نے عدالت کو بتادیا ہے کہ جب تک اس عدالت میں اس مقدمے کی کارروائی جاری رہے گی، کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ایک حاضر سروس نیوی کمانڈر کو پاکستان میں جاسوسی کے لیے بھیجا تھا، ایک ملزم تک ہم قونصلر کو رسائی کیسے دے سکتے ہیں؟انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت کو اس مقدمے میں منہ کی کھانی پڑے گی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں نے واضح کیا کہ پاکستان عالمی عدالت میں اپنا ڈیکلریشن جمع کراچکا ہے جس کے مطابق ہم قومی سلامتی پر عالمی عدالت کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتے، انہوں نے بھارت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے سہولت کاروں تک رسائی فراہم کیے جانے کی ضرورت کا اظہار کیا جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پاکستان کی قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ،عبوری فیصلے سے کلبھوشن پر پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوا،قومی سلامتی سب پر مقدم ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی عالمی عدالت کے عبوری فیصلے سے یہ تاثر بہرحال ابھرا ہے کہ دائرہ اختیار اور قونصلر رسائی کے حوالے سے عالمی عدالت میں پاکستان کے موقف کو پذیرائی نہیں ملی لہٰذا دیکھا جانا چاہیے کہ ہمارے وکلاء کی تیاری اور کاوشوں میں کیا کمی رہی اورہم عدالت کو اپنے موقف پر قائل کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے۔ اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ یہ حتمی فیصلہ نہیں ، لیکن اس کے بعد یہ امر نہایت ضروری ہے کہ مقدمے کے آئندہ مراحل میں پاکستان کا موقف ناقابل تردید دلائل اور قطعی ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے ۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں منظم دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث اپنے جاسوس کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جائے جانے سے ہمیں اپنے خلاف بھارت کے مذموم عزائم اور سازشی منصوبوں کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کا بہترین موقع مل گیا ہے ۔ کلبھوشن کے حوالے سے ہمارا کیس یقینابہت مضبوط ہے اور اس کی پھانسی کا فیصلہ مکمل طور پر انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے لیکن اب معاملہ عالمی عدالت میں آجانے کے بعد محض دائرہ اختیار کو بنیاد بنانا یا یہ کہنا کہ عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کسی ریاست کے لیے لازمی نہیں لہٰذا سزائے موت کے خلاف فیصلہ آیا توتسلیم نہیں کیا جائے گا، قومی مفادات کے منافی ہوگا کیونکہ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں منفی تاثر ابھرے گا۔لہٰذا ضروری ہے کہ اس مقدمے میں پاکستان کا موقف اتنے مؤثر دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے جسے مسترد کرنا عدالت کے لیے آسان نہ ہو اورپوری دنیا کے سامنے بھی بھارت کا منفی اور سازشی طرز عملپوری طرح بے نقاب ہوجائے۔ اس معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسا ہونا پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا۔

.
تازہ ترین