قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار بجٹ دوہزار سترہ، اٹھارہ پیش کر رہے ہیں، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
آج ن لیگ کی حکومت کا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کررہا ہوں ،ملکی تاریخ میں پہلی بار منتخب وزیراعظم اور وزیر خزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کررہے ہیں۔
یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے ، آج پاکستان تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، چار سال میں ٹیکس وصولیوں میں اکیاسی فیصد اضافہ ہوا۔
پرائيویٹ سیکٹر کو قرضے کی فراہمی میں چار گنا اضافہ ہوا ، صنعت کے لیے لوڈشیڈنگ مکمل طورپر ختم ہوچکی ، آنے والے سال میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
عالمی ادارے کہہ رہےہیں کہ پاکستان 2030 تک دنیا کی بیس بڑی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا ، زرعی پیداوار میں اضافہ حوصلہ افزا ہے۔
گزشتہ چار سال میں فی کس آمدنی بائیس فیصد بڑھ کر 1629 ڈالر ہوئی، حکومت نے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی ، پاکستان کی معیشت کا حجم 300ارب امریکی ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔
عالمی برادری کا ہم پر معاشی اعتبار مضبوط ہوا ہے،رواں مالی سال میں 700ارب روپے کے زرعی قرضے دیے گئے۔
اس سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5اعشاریہ 3فیصد ہے،اس سال مشینری کی درآمد میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا،صنعتوں کےلیے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی۔
پاکستان 2030 تک بیس بڑی معاشی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا،گیس کی فراہمی بہتر ہوئی، صنعت کے لیے لوڈ شیڈنگ ختم کردی،آنے والے سال میں لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
گھریلوصارفین کے لیے بھی لوڈ شیڈنگ کم ہوئی،مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2016 تک اصلاحاتی کام مکمل کرلیا ہے۔
دنیا کی بڑی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کی ہے،گندم،مکئی کی پیداوار میں اضافہ رکارڈ کیا گیا۔
صنعتی سیکٹر میں5 اعشاریہ 02 فیصد اضافہ ہوا،معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں پاکستان 2030تک جی 20 میں شامل ہوجائے گا،پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔
سروسز سیکٹر میں5 اعشاریہ98 فیصد ترقی ہوئی،حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی گئی،رواں مالی سال میں 700ارب روپے کے زرعی قرضے دیے گئے،اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 40 فیصد اضافہ ہوا،پاکستان میں فی کس آمدن 1631 ڈالر رہی۔
4سال کے دوران 24قوانین بنائے یا تبدیل کیے گئے،رواں سال کپاس ،گنا ،مکئی کی رکارڈ پیداوار ہوئی۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 97ارب روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے،خواتین کو لسٹڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں نمائندگی دی جائے گی،گزشتہ ہفتے کمپنیات بل کو منظور کیا ہے،4سال میں ٹیکس محصولات میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستان کے پاس 21ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ ذخائرہیں،پاکستان 2030ء تک 20 بڑی معاشی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا، پاکستان کونمایاں اصلاحات کرنےوالے 10ممالک میں شامل کیا گیا۔
مالی خسارہ کم ہوکر 4 فیصد تک آگیا ہے ،جی ڈی پی کی شرح دس سال میں سب سے زیادہ ہے ،دو ہزار سترہ اٹھارہ میں جی ڈی پی کی شرح میں 6 فیصد اضافہ تجویزکیا ہے۔
بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4اعشاریہ 1 فیصد تجویز کیاہے، سرمایہ کاری ٹو جی ڈی پی تناسب 17 فیصد تجویز کی ہے،1001ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ ہوگا، سوئٹزرلینڈ سے ٹیکس مقاصد کے لیے بینکنگ معلومات کا تبادلہ ہو سکےگا۔
سوئٹزرلینڈ سےٹیکس مقاصد کے لیےبینکنگ معلومات کامعاہدہ توثیق کےمراحل میں ہے،زرمبادلہ کے ذخائر 21ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔
یکم جون سے پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ بن جائے گا ،پی ایس ڈی پی کےلیے ایک ہزار ایک ارب مختص کرنے کی تجویز ہے۔
مالی سال18-2017 ءمیں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد رکھا ہے، سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 10فیصد ایڈہاک الاؤنس کا اضافہ کیا ہے۔
ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ میں 14 فیصد اضافے کی تجویز ہے،رواں اخراجات کو کم کرکے ترقیاتی اخراجات بڑھا رہے ہیں۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے121ارب روپےمختص کرنے کی تجویز،زراعت ،مالی شعبے، برآمدات روز گار کے لیے نئے مواقع پیداکریں گے،تین سو ماہانہ یونٹ والے صارفین کے لیے سبسڈی جاری رکھی جائےگی۔
بجلی پر سبسڈی کے لیے 118ارب روپے رکھے گئے ہیں ،لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 20ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 68لاکھ مستحق افراد مستفید ہوں گے، اس سال ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3521ارب ہے۔
کسانوں کو 600ارب روپے کے آسان قرضے دیے گئے،دوردرازعلاقوں میں بجلی کے لیے سولر سسٹم والا نظام متعارف کرائیں گے، مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5310ارب روپے لگایا ہے۔
کسانوں کے لیے قرضوں کا حجم ایک ہزار ایک ارب روپے کیاجا رہا ہے ،زرعی قرضوں کا حجم ترقیاتی حجم کے برابر رکھا جا رہا ہے۔
یکم جولائی 2017ء سے ساڑھے 12ایکڑ والےکسانوں کو9اعشاریہ 9 فیصد سالانہ کی شرح سے زرعی قرضے ملیں گے۔
ڈی اے پی پر فکس سیلز ٹیکس 400سے کم کر کے 100روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے، کل آمدنی سے صوبائی حکومتوں کا حصہ2384ارب روپےلگایا گیا، یہ وسائل وفاقی وصوبائی حکومتیں انسانی ترقی اورسیکیورٹی پرخرچ کریں گی۔
زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کیاجارہا ہے،کل اخراجات کا تخمینہ 4753ارب روپے ہے، ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کیپٹل گین ٹیکس کی تین درجہ بندیوں کا نظام ختم کردیا گیا،سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایک روپیہ سے بڑھا ایک روپیہ 25 پیسےکرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس 6 فیصد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
سیگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے، اسٹیل سیکٹر پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز ہے۔
پولٹری سےمتعلق خام مال کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور پولٹری صنعت پر کسٹم ڈیوٹی 11فیصد سے کم کر کے 3فیصد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
پاکستان میں انفرا اسٹرکچر بینک قائم کیا جارہا ہے،فی کسان 50ہزار روپے تک قرضہ دیاجائےگا،انفرا اسٹرکچر بینک سے پراجیکٹ فنانسنگ ہو سکے گی،مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5310ارب روپے لگایا گیا ہے۔
ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4013 ارب روپے لگائی گئی ہے، کل آمدنی سے صوبائی حکومتوں کا حصہ2384ارب روپے لگایا گیا، گھر بنانے کیے لیے حکومت 10 لاکھ روپے تک کے قرضوں پر 40فیصد گارنٹی دےگی۔
جنوبی کوریا کے تعاون سے اسلام آباد میں آئی ٹی کمپنی قائم کی جائےگی،موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی امپورٹ پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے ،پی ایس ڈی پی میں 1001 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
آئی ٹی سروسز کی ایکسپورٹ پر سیلز ٹیکس معاف کیاجا رہا ہے، جنوبی کوریا کے تعاون سے اسلام آباد میں آئی ٹی کمپنی قائم کی جائےگی، موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی امپورٹ پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔
پی ایس ڈی پی میں 1001 ارب روپے رکھا گیا ہے،آئی ٹی سروسز کی ایکسپورٹ پر سیلز ٹیکس معاف کیاجا رہا ہے ،ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹرمیں یکساں شرح سے9فیصدریگولیٹری ڈیوٹی نافذہوگی۔
موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے،انفرااسٹرکچر کیے لیے پی ایس ڈی پی کا67 فیصدمختص کیا ہے۔
سال2018 ءکے بعد 15 ہزارمیگاواٹ کےمنصوبوں پر کام ہو رہا ہوگا، دیامر بھاشا ڈیم کےلیے 21ارب روپے رکھے گئے ہیں، داسو ہائیڈرو پاورپراجیکٹ کے لیے 54ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
پانی کے شعبے کے لیے 38ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں ،آر او بی ون،کچھی کینال کے منصوبے شامل ہیں ،ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے کے لیے 38ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ریلوے کے لیے 42اعشاریہ9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ،پشاور تا کراچی ریلوے لائن کے لیے چین کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 35اعشاریہ 7ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، صحت کے لیے 49ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل ہیلتھ پروگرام کے لیے 10ارب روپے رکھے جا رہے ہیں ،’صاف پانی سب کے لیے‘منصوبے کے لیے 12اعشاریہ 5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نئی آئی ٹی کمپنیز کو پہلے 3سال انکم ٹیکس کی چھوٹ دیں گے،افواج پاکستان کے تمام افسران اور جوانوں کو تنخواہ کا 10 فیصد الاونس دیاجائےگا۔
اسلامی بینکاری کی حوصلہ افزائی کی تجاویز بھی بجٹ کا حصہ ہیں،ٹیکس گزاروں کے لیےگاڑیوں کی رجسٹریشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی تجویز ہے۔
آٹھ سو پچاس سی سی گاڑیوں کی رجسٹریشن پرودہولڈنگ ٹیکس 10ہزارسےکم کرکے7500روپےتجویز دی گئی ہے، گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کا اطلاق ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہوگا۔
تیرہ سو سی سی گاڑیوں پرٹیکس30ہزارسےکم کرکے25ہزارروپے کرنے اور وزیراعظم یوتھ لون اسکیم کےتحت لی گئی گاڑیوں پرودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز ہے،اس تجویز کا مقصد بے روزگار نوجوانوں کو فائدہ دیناہے۔
اسمارٹ فونز پر کسٹم ڈیوٹی 1ہزار سے کم کر کے 650کی جا رہی ہے،خام مال کی درآمد پر استثنیٰ کی انتہائی حد کوبڑھا کر125 فیصد کیا جا رہا ہے۔
ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کو اپیل کا حق دینے کی تجویز ہے،نان فائلرز کو اپیل کے لیے 60دن کی سہولت دینے کافیصلہ کیا ہے۔
انشورنش پریمئم 2سے بڑھا کر 3 لاکھ روپےکیاجارہا ہے ،ڈیویڈنٹ پرانکم ٹیکس شرح 12اعشاریہ5فیصدسےبڑھاکر15 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
اسٹاک ایکسچینج میں شامل کمپنیوں کوٹیکس کریڈٹ کی چھوٹ میں کمی تجویز ہے، روزمرہ استعمال کی اشیاکے تقسیم کنندگان کےمنافع کی شرح کم ہے۔
میوچل فنڈڈیویڈنٹ پر ٹیکس شرح10سے بڑھا کر 12اعشاریہ5فیصد کرنے کی تجویز ہے، پہلے 2سال 20فیصد اور اگلے3 سال 10فیصد کی چھوٹ دی جائے گی۔
تقسیم کنندگان پر ٹیکسوں کی کم ترین شرح 0اعشاریہ2 فیصد مقرر کی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے اس لیے سپر ٹیکس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تقسیم کنندگان پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 3اعشاریہ5 فیصد سے 2اعشاریہ5فیصد کرنے کی تجویز ہے، گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے لیے ان شرحوں میں کمی نہیں ہوگی۔
ودہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹس میں غلطیوں کی تصحیح کے لیے60دن میں نظرثانی کی اجازت ہوگی،نان فائلرز کے لیے مختلف مد میں ٹیکس کی شرحیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،کارپوریٹ سیکٹرکے لیےٹیکس35فیصد سےکم کرکے30فیصدرکھنےکی تجویز ہے۔
ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے،الیکٹرک گاڑیوں پرعائدڈیوٹی میں ریلیف کے لیے3ماہ میں پیکیج کااعلان کیا جائے گا،ٹیکس اورشرح نموکےمابین15فیصدتناسب حاصل کرناہے۔
پولٹری کی مشینری پر سیلز ٹیکس کم کر کے 7فیصد کرنے کی تجویز ہے،سگریٹ کی حوصلہ شکنی کے لیے فیڈرل ایکسائزڈیوٹی بڑھانےکی تجویز ہے،سگریٹ پرکسٹم ڈیوٹی شرح3فیصدسےبڑھاکر20فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
پولٹری فارم سیکٹراسٹاک پرعائد5فیصدریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنےکی اور شترمرغ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دینےکی تجویز ہے۔
الیکٹرک سگریٹ پر 20 فیصد ڈیوٹی ، ایلومینیم پر ڈیوٹی 10 فیصد سے کم کر کے 5فیصد کرنے، بےبی ڈائپرز کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 16 سے کم کرکے11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
لکڑی کی شیٹس پرکسٹم ڈیوٹی16سےکم کرکے11فیصد کرنےکی تجویز ہے،الیکٹرک گاڑیوں پر عائد ڈیوٹی میں ریلیف کے لیے 3ماہ میں پیکیج کا اعلان کیا جائے گا۔
شہداء کےخاندانوں کےلیےفلاحی اسکیم شروع کی جائے گی،قومی بچت سے فوج، پولیس، سیکیورٹی اداروں کے شہداء کے پسماندگان کو اضافی منافع دے گا۔
سرکاری ملازمتوں میں معذوروں کا کوٹا 2فیصد کی شرط لسٹڈ کمپنیوں پر بھی لاگو ہوگی، پاکستان بیت المال کا بجٹ 4 ارب سے بڑھا کر 6 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔
فکسڈ ٹیکس فی یونٹ کےحساب سےفائنل ٹیکس پچھلے بجٹ میں عائد کیا، بیواؤں کے لیےایچ بی ایف سی کےقرض کی ادائیگی میں چھوٹ کی اسکیم شروع کرنےکافیصلہ کیا گیا ہے۔
بیواؤں کے ذمے 5 لاکھ روپے تک قرض حکومت ادا کرے گی،اسکیم کا اطلاق ان بیواؤں پر ہوگا جنہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔
سمندر پار پاکستانیوں کے لیےایک ارب ڈالرزکا نان کنورٹیبل بانڈجاری کیا جائے گا،ان کے لیےسی ڈی اے علیحدہ سیکٹر بھی بنائےگا۔
اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے اسے واپس لینے کی تجویز ہے،الیکٹرانک اشیاء کے ڈیلر، ڈسٹری بیوٹرز، ہول سیلرز پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔
سال 2009ء ،2010ءکے افواج پاکستان، سول ملازمین ایڈہاک ریلیف الاؤنس بنیادی تنخواہ میں ضم کیا گیا ہے، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
گریڈ5 تک کے ملازمین کو50 فیصد ہاؤس رینٹ الاؤنس کی کٹوتی ختم کردی گئی ہے،ڈیلی الاؤنس میں اضافےکی شرح 60فیصد کردی گئی ہے۔
پاکستان بحریہ کے الاؤنسز میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، پاک بحریہ کےبیٹ مین الاؤنس، پے ہارڈ لائن الاؤنس میں اضافے کی تجویز ہے۔
ایف سی کی تنخواہ میں 8 ہزار روپے فکس الاؤنس کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے،تنخواہوں میں اضافے سے مجموعی طور پر 125ارب روپے کا اضافی خرچ ہوگا۔
کم سے کم اجرت 14ہزار سے15 ہزار روپے ماہانہ کرنے کی تجویز ہے، کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس کی شرح 30 فیصد ہوگی۔
دواسازصنعتوں کےاخراجات کی حدفروخت 5سے10فیصدکرنےکی تجویزہے، گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ خسارے کا تخمینہ 4اعشاریہ2 فیصد ہے۔
دفاعی بجٹ کی مد میں 920 ارب روپے رکھے گئے ہیں،صوبوں کاحصہ نکالنےکےبعدوفاق کی باقی آمدنی2926ارب روپےمتوقع ہے،جبکہ کل آمدنی میں صوبائی حکومتوں کاحصہ2384ارب روپےتجویز کیا گیا ہے۔
ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں14 فیصداضافہ متوقع ہے، جبکہ اس کی کل آمدنی میں 12اعشاریہ1 فیصد اضافہ متوقع ہے،ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4 ہزار13ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔
میت کی تدفین، منتقلی16سو روپے سے بڑھا کر 48سو اور 5ہزار سے 15ہزار کرنے کی تجویزہے۔
آئل کمپنیوں پر عائد 2فیصد ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے،مزدور کی کم سے کم اجرت 14ہزار سے15 ہزار روپے ماہانہ کرنے کی تجویز ہے۔
سی پیک سے جڑے منصوبوں کے لیے 180ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، اب تعلیمی اخراجات پر ٹیکس میں رعایت 15لاکھ روپے تک سالانہ آمدن پر ہوگی۔
پہلے تعلیمی اخراجات پررعایت سالانہ 10لاکھ روپے سے کم آمدن پر ہوتی تھی، فی بچہ تعلیمی اخراجات پر 60ہزار روپے تک ٹیکس میں 5 فیصد رعایت ہے۔
سی این جی اسٹیشن کے گیس بل پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے،کمیشن، نیلامی پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔
لاٹری کےانعامات پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے،نان فائلرز پر کرائے سے آمدنی، پرائز بانڈ پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔
نان فائلرز پر ٹھیکوں، فروخت، خدمات ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے، سرجیکل گاؤن، بینڈیج والے کپڑے پر کسٹم ڈیوٹی شرح5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
آٹو پارٹس کی صنعت پر ریگولیٹری ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5فیصد کرنے کی تجویز ہے، پنکھے اور برتن سازی کی صنعت پر ریگولیٹری ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5فیصد کرنے کی تجویز ہے،امتیازی رعایتوں کے خاتمے کے لیے ایف بی آر نے تاریخی عمل کا آغاز کیا ہے۔
پان کی درآمد پر 200 روپے فی کلوگرام ریگولیٹری ڈیوٹی بھی لاگو ہوگی، پان چھالیہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی شرح 10سے بڑھا کر 25 فیصدکرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے بعد قومی اسمبلی کااجلاس پیرکی سہ پہر4بجےتک ملتوی کردیاگیا۔