وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار نے جمعہ کو آئندہ مالی سال 2017-18 کیلئے وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ ان کی بجٹ تقریر کا متن درج ذیل ہے
جناب اسپیکر!
1۔ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہا ہوں۔جناب اسپیکر!2۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیراعظم اور وزیرخزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ میں بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو یہ موقع دیا۔3۔ اگلے مالی سال کے بجٹ کی تفصیلات بتانے سے پہلے میں مختصر طور پر پچھلے چار سال میں طے کیے گئے فاصلے کا احوال بتانا چاہتا ہوں، اگر میں کہوں کہ جون 2013ء میں پاکستان اپنی مالی ادائیگیوں پر Defaultکرنے کے قریب تھا تو یہ ایک حقیقت تھی۔ ہمارے Forex Reservesدو ہفتے کی درآمدات کے برابر اور تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے۔ بڑی ادائیگیاں واجب الادا تھیں اور کمرشل بینک تو کیا Multilateral Development Banksبھی پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھے۔ اس سال FBRکی ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی شرح 3.38فیصد تھی جبکہ اخراجات بہت زیادہ تھے۔ نتیجے میںFiscal Deficitآٹھ فیصد سے تجاوز کر چکا تھا۔ توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا۔ شہروں میں 12سے 14گھنٹے اور دیہات میں 16سے 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ نوشتہ دیوار اس بات سے بالکل واضح تھا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی معیشت کو Macroeconomicاعتبار سے Unstableقرار دیا جا چکا تھا۔4۔ آج پاکستان تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس سال ہماری جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3فیصد ہے جو کہ پچھلے دس سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں جو کہ چار ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران ٹیکس وصولوں میں 81فیصد اضافہ ہوا ہے جو اوسطاً 20فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ 2013ء سے اب تک پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے کی فراہمی میں پانچ گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ Fiscal Deficitتقریباً 4.2فیصد ہو گا۔ اس سال مشینری کی درآمد میں 40فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور صنعت کے لئے لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جبکہ تجارتی اور گھریلو صارفین کے لئے لوڈشیڈنگ میں واضح کمی آئی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ سال لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔5۔ نوشتہ دیوار آج بھی واضح ہے۔ صرف پیغام تبدیل ہوا ہے ۔ آج House Coopers Price Waterجیسے معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک دنیا کی 20بڑی اقتصادی طاقتوں (G-20) میں شامل ہو جائے گا۔ پوری قوم اس متاثر کن تبدیلی کے کریڈٹ کی مستحق ہے اور میں اس Turnaroundپر اللہ تعالیٰ کا بے پناہ مشکور ہوں جس کی مدد کے بغیر 4سال کے قلیل عرصہ میں یہ ناممکن تھا۔جناب اسپیکر!6۔ میں اس معزز ایوان، وزیراعظم محمد نواز شریف اور پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس سال حکومت پاکستان نے پہلی بار صرف قومی ترقی کے لئے قرضے لئے ہیں۔ پہلے ہم نہ صرف ترقیاتی ضروریات بلکہ غیرترقیاتی اخراجات کے لئے بھی قرض لیتے تھے۔ یہ قرضے ہمیں معاشی تنزلی کی طرف لے جا رہے تھے جہاں ہمیں روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ادھار لینا پڑتا تھا اور ان قرضوں پر منافع کی ادائیگی میں بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ یہ تبدیلی اچھے مالیاتی انتظام، محاصل بڑھانے پر مستقل توجہ دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں، کسی بھی حکومت یا ادارے کے لئے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرض لینے میں کوئی عار نہیں کیونکہ اس کے سماجی اور معاشی فوائد اس پر دئیے جانے والے Mark-Upسے زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری سے تیز تر، پائیدار اور اجتماعی ترقی حاصل ہو گی۔ انشاء اللہ7۔ میں ایوان کو اس بات سے بھی آگاہ کرنا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل الیکشن 2013ء کے منشور کے مطابق پاکستان نے ستمبر 2016ء تک اصلاحاتی پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ اس دوران ملک میں انتہائی اہم اور مشکل Structural Reformsکو عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس پروگرام کی تکمیل سے بین الاقوامی برادری کا ہمارے معاشی ایجنڈے پر اعتماد مضبوط ہوا۔ حکومت نے ملک کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کر دیا ہے جس کا اعتراف عالمی برادری بھی کر رہی ہے اور جس کی عکاسی دنیا کی بڑی ریٹنگ Agenciesمثلاً Moodyʼs, S&P, Fitchکی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کرنے سے بھی ہوتی ہے۔پچھلے 4برسوں کے مقابلے میں آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟جامع معاشی کارکردگی 2012-13ء بمقابلہ 2016-17ءجناب اسپیکر!8۔ اب میں اس معزز ایوان کے سامنے پاکستانی معیشت کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔(1) اس سال GDPمیں اضافہ کی شرح 5.28فیصد رہی جو کہ پچھلے دس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ چار سال پہلے معاشی ترقی کی شرح 3.68فیصد تھی۔ رواں سال عالمی معیشت میں 3.5فیصد کی شرح سے اضافہ کی توقع ہے۔ اس تناسب کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے اکثر ممالک کی کارکردگی سے بہتر رہی ہے۔ معاشی ترقی کی بلند شرح کے سبب پاکستان میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کی معیشت کا حجم 300ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔(2) الحمد للہ ہمارا زرعی شعبہ ( Agriculture Sector)اب بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔ حالیہ سال اس کی کارکردگی متاثر کن رہی ہے، گزشتہ سال زرعی پیداوار میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا تھا، اس کے مقابلے میں رواں برس ہونے والا 3.46فیصد کا اضافہ حوصلہ افزاء ہے۔ تمام بڑی فصلوں بشمول گندم، کپاس، گنا اور مکئی کی پیداوار میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جمود کا شکار زرعی شعبے میں یہ بہتری ستمبر 2015ء میں وزیراعظم کے اعلان کردہ کسان پیکج اور اس ایوان کے منظور کردہ بجٹ 2016-17ء میں شامل غیر معمولی اقدامات کی بناء پر ہوئی ہے۔(3) Industrial Sectorمیں 5.02فیصد اضافہ ہوا ہے اور کاروبار میں روزگار کے نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔(4) Services Sectorمیں 5.98فیصد ترقی ہوئی ہے جس میں Transport and Communication, Retail, Bankingاور Housingوغیرہ کے شعبہ جات شامل ہیں۔(5) پچھلے چار سالوں میں فی کس آمدنی ( Per Capita Income)، 1334ڈالر سے بڑھ کر 1,629ڈالر ہوئی ہے یعنی 22فیصد کااضافہ ہوا۔(6) 2008-13کے دوران افراط زر (Inflation) اوسطاً 12فیصد سالانہ رہی جبکہ رواں سال یہ شرح 4.3فیصد متوقع ہے۔(7) Fiscal Deficit: حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے Fiscal Disciplineپر سختی سے عمل کیا جس کے نتیجے میں خسارہ مالی سال 2012-13ء میں 8.2فیصد سے کم ہو کر رواں سال میں 4.2فیصد رہ گیا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی محصولات کی وصولی میں اضافہ سے کی جس کی بنیاد انتظامی امور میں بہتری ، Broadening of Tax baseاور کئی دہائیوں سے جاری رعایتی SROsکے خاتمے پر تھی۔ اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی کی گئی۔(8) FBRکے محاصل:مالی سال 2012-13میں FBRنے 1,946ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا جبکہ اس سال ٹیکس کا ٹارگٹ 3,521ارب روپے ہے اس طرح گزشتہ چار سالوں میں 81فیصد اضافہ ہوا جو کہ اوسطاً 20فیصد سالانہ ہے۔ Tax to GDPکا تناسب جو کہ مالی سال 2012-13ء میں 10.1فیصد تھا، رواں سال 13.2فیصد متوقع ہے۔(9): اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جون 2013ء کے 9.5فیصد کے مقابلے میں پچھلے 45سال کی کم ترین شرح 5.75فیصد پر ہے۔ اسی طرح ایکسپورٹ ری فنانس کی سہولت (ERF) کا ریٹ 2013ء کے 9.5فیصد کے مقابلے میں جولائی 2016سے 3فیصد کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح Financing Facility Long Termکا ریٹ بھی جو کہ جون 2013ء میں 11.4فیصد تھا کم کر کے مجموعی صنعت کے لئے 6فیصد اور ٹیکسٹائل شعبے کے لئے 5فیصد کیا جا چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں نجی شعبے کو قرض کی فراہمی میں تیزی آئی ہے۔(10) پالیسی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے مئی 2017ء تک نجی شعبے کے قرضے کا حجم 507ارب روپے ہے جبکہ 2012-13ء میں یہ قرضے صرف 93ارب روپے تھے اس کے نتیجے میں ملک میں کاروبار کو فروغ ملا ہے۔(11) چار سال قبل زرعی قرض کا حجم 336روپے تھا جو مالی سال 2016ء کے اختتام پر 600ارب روپے پر پہنچا اور رواں مالی سال کے لئے 700ارب روپے کا ہدف ہے۔(12) اس سال جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات 37.8ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درآمدات میں یہ غیرمعمولی اضافہ مشینری کی درآمد میں تقریباً 40فیصد سے زائد اضافے، صنعتی خام مال، پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمت میں اضافہ اور اس کے علاوہ توانائی اور انفراسٹرکچر سے متعلقCPEC منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں ہوا۔ مستقبل قریب میں یہ سب پاکستانی معیشت کی بہتری کا عندیہ ہے۔(13) رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے دوران برآمدات میں گذشتہ سال کے 7.8 فیصد کے مقابلے میں مجموعی طور پر1.28 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بہتری حکومت کی طرف سے جنوری2017ء میں Exports کو بروقت180 ارب روپے کا جامع پیکج دینے اور ان کی اپنی کاوشوں کے نتیجہ میں ممکن ہوئی ہے۔(14) :Foreign Exchange Reservesجون2013ء میں اسٹیٹ بنک کے پاس Foreign Exchange Reserves6.3ارب ڈالرز تھے۔ آج بڑے تجارتی خسارے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے پاس 16 ارب ڈالرز سے زیادہ کے Reserves ہیں جو کہ کمرشل بینکوں کے Reserves شامل کرنے کے بعد21 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔(15) Exchange Rate 30:جون 2013ء کا ڈالر کا انٹر بینک ریٹ99.66 روپے تھا۔ یہ ریٹ چند ماہ میں بڑھ کر111 روپے کے قریب پہنچ گیا تاہم اچھے معاشی انتظام اورForex Reservesکے ذخائرمیں اضافے کے بعد واپس99 وپے پر آگیا۔ لیکن اگست سے دسمبر2014ء میں سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ ریٹ دوبارہ104.80 روپے کے قریب چلا گیا اور اس وقت سے ابھی تک یہ ریٹ اسی سطح پرمستحکم ہے۔(16) گذشتہ چار برسوں کے دوران بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانوں نے بیش بہا ترسیلات زر بھیجی ہیں جو کہ13.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر19.9 ارب ڈالرز پر پہنچ گئیں۔ یہ 40فیصد اضافہ حکومت کے Pakistan Remittance Initiative سکیم کی بحالی اورماضی کے بقایا جات کی ادائیگی کے ذریعہ ممکن ہوا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے10ماہ میں 15.6 ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان بھیجی گئیں خلیجی ممالک کی مشکل سیاسی و اقتصادی صورتحال کے باوجود رمضان اورعید کی وجہ سے آخری دو ماہ میں ترسیلات زر میں اضافہ متوقع ہے۔ میں بیرون ملک مقیم محنت کرنے والے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے عزیزواقارب کو پاکستان میں رقم بھیجنے کیلئے بینکنگ ذرائع سے اپنی رقوم بھیج کر پاکستان کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالا۔(17) Pakistan Stock Exchange 10:سال سے زیادہ عرصہ سے زیر التواء مسائل کے حل کے بعد تینStock Exchanges کا انضمام جنوری 2016ء میں مکمل کرلیا گیا تب سے Pakistan Stock Exchange بہتری کی طرف گامزن ہے اورMorgan Stanley Capital Index (MSCI) International کے مطابق Frontier مارکیٹ سے ترقی کرکے یکم جون2017ء کوEmerging مارکیٹ بن جائے گی۔Bloomberg نے 2016ء میں اسے ایشیا میں بہترین اورپوری دنیا میں پانچویں بہترین مارکیٹ قراردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیکس 11مئی 2013ء کے 19,916 پوائنٹس کے مقابلے میں آج52,000 پوائنٹس سے بڑھ چکا ہے۔ اس عرصہ کے دورانMarket Capitalization 51 ارب ڈالر سے بڑھ کر97 ارب ڈالر ہوگئی ہے جو کہ90 فیصد اضافہ ہے۔(18) نئی کمپنیوں کی Registration : اس سال مارچ تک5,855 نئی کمپنیاں رجسٹر ہوئی ہیں جبکہ 4 سال پہلے پورے مالی سال میں صرف3,960 کمپنیاں رجسٹر کی گئی تھیں۔ (19) معاشی قوانین کا نفاذ :کسی بھی معیشت کو اس کی حقیقی شرح نمو حاصل کرنے کیلئے مناسب قانونی اور ریگولیٹری فضا کا مہیا ہونا لازمی ہے۔ ایک موثر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی سےgovernance اورservice delivery میں آنے والی رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے ہم نے اپنے دور حکومت میں24 قوانین بنائے یا تبدیل کئے ہیں جن میں مندرجہ ذیل قوانین شامل ہیں:
Benami Transactions Prohibition Act, ٭Special EconomicZones Amendment Act, ٭Deposit Protection Corporation Act, ٭Corporate Bureau Act, ٭Corporate Restructuring Companies Act, ٭National Energy Efficiency and Conservation Act ٭Anti Money Laundering Act, ٭Gas Theft Control and Recovery Ordinance ٭ اورLimited Liability Partnership Act
٭علاوہ ازیں ایک ترقی پذیر معیشت کیلئے درکار قانونی ڈھانچہ مزید بہتر بنانے کیلئے 10 قوانین پربھی کام کیاجارہاہے۔(20)کمپنیزلاء (Companies Law)اس ہفتے پارلیمنٹ نےCompanies Law2017پاس کیا ہے جس پر میں دونوں ایوانوں کاشکریہ ادا کرتا ہوں اورمبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس قانون نے 33 سالہ پرانے Ordinance1984 Companiesکو Replace کیا ہے۔یہ بڑی اصلاحات میں سے ایک ہے جو تمام کمپنی قوانین کو یکجا کر کے پاکستان میں Corporatizationکو عالمی معیار کے عین مطابق ڈھالنے میں مدد دے گا۔ یہ قانون کاروبار شروع کرنے، کاروباری مراحل میں آسانی پیدا کرنے اور سرمایہ کاری محفوظ بنانے میں مددگار ہو گا۔ یہ چھوٹے حصہ داروں اور قرض مہیا کرنے والوں کے معاملات کے تحفظ کی ضمانت مہیا کرے گا۔ چھوٹی کمپنیوں کی Regulatory Complianceمیں آسانی پیدا کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے فروغ کی نئی کمپنیوں کے اندراج میں آسانی ہو گی۔ نئے قانوون کے مطابق خواتین کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خواتین کوListed Companiesکے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں نمائندگی دی جائے گی۔21۔ Ease of Doing Business ملک میں کمپنیوں کے لئے کاروباری آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اصلاحات کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں عالمی بینک کی کاروباری آسانی کی درجہ بندی میں پاکستان کی Rankingمیں چار درجے بہتری آئی ہے۔
(جاری ہے)
.