(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے علاوہ ایک نیا پروگرام energy for all متعارف کروایا جا رہا ہے جس کیلئے ابتدائی طو ر پر 12.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جن بنیادی منصوبوں میں حکومت سرمایہ کاری کرے گی وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) LNG سے بجلی بنانے کے دو منصوبوں بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کیلئے 76.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ دونوں منصوبوں سے 2,400 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ دونوں منصوبوں کی مکمل تکمیل 2017-18 میں ہو گی۔
(2) داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کیلئے 54 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اس منصوبے کے تحت 2,160 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔
(3) دیامیر بھاشا ڈیم (Lot-1) کی تعمیر کیلئے 21 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس ڈیم سے 4,500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔
(4) نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے 19.6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
اس پروجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ اس منصوبے کی تکمیل بھی 2017-18 میں ہو گی۔
(5) تربیلا ہائیڈرو پاور کی چوتھی توسیع کیلئے 16.4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے 1,410 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔
(6) جامشورو میں 1,200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل کول پاور منصوبے کیلئے 16.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(7) اس کے علاوہ کراچی میں 2,200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل 2 ایٹمی توانائی منصوبوں اور 600 میگا واٹ کے چشمہ سول ایٹمی پاور پلانٹ پر کام جاری رہے گا۔
35۔ بجلی کی پیداوار اور مانگ میں فرق ہمارے چیلنج کا صرف ایک پہلو ہے۔ ماضی میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں کوئی اہم سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ نتیجتاً اگر ہم بجلی کی پیداوار کو بڑھا بھی لیں تو صارفین تک بجلی پہنچانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس سال سے ہم صورتحال کی بہتری کیلئے ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ گرڈ سٹیشنوں اور ترسیلی نظام میں بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
پانی
36۔ اگر پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسلئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر ڈیم بنانے اور نہروں اور water courses کو تعمیراور بہتر کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ اوپر بیان کئے گئے بڑے منصوبوں کے علاوہ پانی کے شعبے میں حکومت 38 ارب روپے مختص کر رہی ہے۔ اس مقرر کردہ بجٹ میں زیادہ تر حصہ RBOD-I ، RBOD-II اور کچھی کینال پر خرچ ہو گا۔ مشترکہ طور پر ان تینوں منصوبوں پر 17.7 ارب روپے لاگت آئے گی۔ ان کے علاوہ صوبوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں پانے کے کئی منصوبے جاری رہیں گے۔
قومی شاہراہیں
37۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے پورے خطے کو آپس میں ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قدرتی طور پر حاصل حیثیت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اسے معاشی ترقی میں بدلنے کیلئے پچھلے چار سال میں ہماری حکومت کی توجہ مواصلاتی نظام میں سرمایہ کاری پر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے پچھلے سال کے 188 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 320 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ چار سال پہلے یہ سرمایہ کاری صرف 51 ارب روپے تک محدود تھی۔ اس شعبہ کے بڑے منصوبہ جات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) لاہور۔ عبدالحکیم سیکشن میں 230 کلومیٹر لمبی شاہراہ کیلئے 48 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(2) ملتان سے سکھر 387 کلومیٹر لمبی شاہراہ کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(3) سکھر حیدرآباد سیکشن کیلئے 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ نجی شعبے کی شراکت سے زیر تعمیر ہے۔
(4)کراچی حیدرآباد موٹروے پر تیزی سے کام جاری ہے اور اس کے ایک حصے کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔
(5)ہکلہ سے یارک ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے کیلئے 38 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(6) فیصل آباد سے خانیوال ایکسپریس وے جس کی لمبائی 184 کلومیٹر ہے، کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(7) برہان حویلیاں ایکسپریس وے کیلئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(8) تھاکوٹ سے حویلیاں کیلئے 26 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(9) ڈیرہ اسماعیل خان مغل کوٹ اور ژوب شاہراہ کی بحالی کیلئے 2.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(10) بلوچستان میں خضدار اور پنجگور کے علاقے میں ہوشاب بسیمہ سوراب شاہراہ اور گوادر تربت ہوشاب سیکشن کیلئے 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ریلویز (Railways)
38۔ ریلوے مسافروں اور سامان کی سستی، تیز رفتار اور آرام دہ ترسیل کا ذریعہ ہے۔ لہذا اس کی ترقی ہماری حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ گزشتہ 4 سالوں کے دوران ریلوے میں متاثر کن تبدیلی لائی جا چکی ہے۔ ہرسال آمدنی بڑھ رہی ہے، مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کیلئے نت نئی خدمات کا اجراء کیا جا رہا ہے اور نئے انجن اور بوگیاں شامل کی جا رہی ہیں۔ حکومت اس قومی اثاثے کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ اگلے مالی سال میں 42.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اگلے سال کے بجٹ میں مندرجہ ذیل منصوبے ہماری ترجیحات میں شامل ہوں گے۔
(1) 75 نئے انجنوں کی خریداری کیلئے 15.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(2) 830 بوگیوں کی تیاری اور 250 مسافر کوچز کیلئے 4.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(3) پشاور تا کراچی ریلوے لائین جو تکنیکی طور پر ML-1 کے نام سے مشہور ہے پاکستان کے انفراسٹرکچر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی بہتری اور اپ گریڈیشن کیلئے چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے ہیں۔ یہ ایک عظیم منصوبہ ہے جو کہ پاکستان میں ریلویز کو جدید خطوط پر استوار کرے گا۔
(4) ML-1 line کی بحالی اور up gradation کے ابتدائی ڈیزائن کیلئے اگلے مالی سال میں 4.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
Human Development
39۔ وژن 2025ء میں Human Developement کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔حکومت اس میں سرمایہ کاری کو جاری رکھے گی۔ اس کیلئے ہائرایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں پچھلے سال کے 21.5 ارب روپے کے مقابلے میں 35.7 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ HEC کو جاری اخراجات کی مد میں 60.2 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ صحت کے شعبے میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا بجٹ 25 ارب سے بڑھا کر 49 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جاری سال کے مقابلے میں سرمایہ کاری کو دوگنا کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق 80 ارب روپے کی لاگت سے ہسپتالوں کیلئے ایک نیا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ پہلے سال میں اس مد میں 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے نیشنل ہیلتھ پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے جس کیلئے 10 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں شعبہ صحت کے متعدد پروگراموں بشمول EPI، فیملی پلانننگ، Primary Health Care اور Population welfare پروگرامز میں سرمایہ کاری کا حجم پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھایا جا رہا ہے۔
40۔ دو تہائی بیماریاں پینے کے خراب پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پینے کا صاف پانی صحت عامہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ایک سپیشل پروگرام Clean Drinking Water شروع ہو رہا ہے جس کیلئے اگلے سال میں 12.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ مزید برآں، وزیر اعظم کے SDG پروگرام پروگرام کیلئے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو Social Indicators میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
گوادر کی ترقی
41۔ گوادر کی ترقی کو پاک چین اقتصادی راہداری میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سڑکوں کا جال بچھانے اور ایئر پورٹ کی کشادگی اور جدت اور پورے علاقے کی ترقی کیلئے ایک جامع منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں 2017-18ء میں 31 منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں نئے ایئر پورٹ کا قیام، 200 بستر کا ہسپتال، 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور کھارے پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ (Desalination Plant )شامل ہیں۔
42۔ 2017-18 میں CPEC میں شامل منصوبے اپنے نفاذ کے تیسرے سال میں داخل ہو جائیں گے۔ اگلے مالی سال کے دوران CPEC اور اس سے منسلک منصوبوں کیلئے 180 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
خصوصی علاقہ جات
43۔ خصوصی علاقہ جات کی تیز رفتار ترقی کیلئے 62 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر آزادجموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی فنڈز مالی سال 2016-17 کے 25.75 ارب روپے سے بڑھا کر مالی سال 2017-18 میں 43.64 ارب روپے کئے جانے کی تجویز ہے جو کہ 69 فیصد کا تاریخی اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ 26.9 ارب روپے فاٹا کی ترقی کیلئے مختص کئے جا رہے ہیں۔
امن اور سلامتی
44۔ ستمبر 2013 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر حکومت نے کراچی کی رونقیں بحال کرنے کیلئے Operation کا آغاز کیا۔ اس کے انتہائی مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں اور روشنیوں کے شہر کراچی میں دوبارہ سے ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ کراچی پھر سے پاکستان کا Business Capital بن کر ابھرا ہے اور ہر شعبے میں نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
45۔ پاکستان دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جون 2014ء میں حکومت نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف بڑی کاروائی کا فیصلہ کیا اور پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ قوم کو فخر ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمن کو شکست فاش دی۔ کوئی مارا گیا، کوئی پکڑا گیا اور کوئی بھاگ گیا۔ یہ فتح ہمارے بہادر فوجیوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ آج پوری دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مگر کسی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اتنی جامع فتح حاصل نہیں کی۔ جتنی پاک فوج کو حاصل ہوئی۔ ہمارے جوانوں نے مشکل حالات میں اپنے پیاروں سے دور وقت گزارا‘ شہادت حاصل کی‘ معذور ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ہمیں کامیابی نصیب ہوئی۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے۔ اب وہ کبھی کبھار سرحد پار سے آنکلتے ہیں مگر منہ کی کھاتے ہیں۔ ہمارے بہادر جوانوں اور غیور افسروں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔
46۔ قوم کے بہادر سپوتوں کی بے پناہ قربانیوں کی Recognition کے طور پر میں وزیراعظم کی جانب سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ افواج پاکستان کے تمام افسران اور جوانوں کو تنخواہ کا 10 فیصد ضرب عضب سپیشل الائونس دیا جائے گا۔ یہ الائونس تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے جو اعلان کیا جائے گا اس کے علاوہ ہے۔
47۔ آپریشن ضرب عضب جیسے بڑے قومی اقدام کے لئے وسیع مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ایک قومی فریضہ ہے جس کے للئے وسائل فراہم کرنا پوری قوم پر لازم ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پچھلے تین سال سے 90 سے 100 ارب روپے سالانہ بالواسطہ یا بلاواسطہ خرچ کر رہی ہے۔ بلاواسطہ فوجی کارروائی کے اخراجات کے حوالے سے اور بالواسطہ TDPs کی کفالتٗ واپسیٗ آباد کاری اور علاقہ کے ترقیاتی اخراجات کی مد میں۔ اس ضمن میں National Security Committee نے یہ تجویز دی تھی کہ Gross Divisible Pool کا تین فیصد حصہ اس قومی فریضہ کے لئے مختص کیا جائے۔ یہ معاملہ ابھی CCI او ر NFC میں زیر بحث ہے۔
48۔ اسی طرح کشمیرٗ گلگت بلتستان اور فاٹا کے لئے Gross Divisible Pool سے 3 فیصد رقم مختص کئے جانے پر بھی صوبوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ NEC کی گزشتہ میٹنگ میں آزاد کشمیر کے وزیراعظمٗ وزیراعلی گلگت بلتستان اور گورنر KPK نے فاٹا کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ مطالبہ یہ کہہ کر دہرایا کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اور ان کا بھی Divisible Pool پر حق ہے۔
49۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ Gross Divisible Pool میں سے 3+3 فیصد کی Allocation کے بارے میں فیصلے کی تاخیر کی وجہ سے NFC ایوارڈ کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میں اپنے ہم منصب پارلیمنٹرینز سے درخواست کروں گا کہ وہ صوبائی حکومتوں سے اس منصفانہ اور مناسب Allocation کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادلا کریں۔
بجٹ تخمینہ جات
Budget Estimates 2017-18
50۔ اب میں آئندہ مالی سال کے اہم بجٹ تخمینہ جات کی طرف آتا ہوں۔
(1) مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5,310 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں FBR کی ٹیکس وصولی 4,013 روپے ہے۔ یاد رہے کہ نظرثانی شدہ ہدف 3,521 ارب روپے تھا۔ کل آمدنی میں 12.1 فیصد اضافہ کیاجا رہا ہے جبکہ FBR کی ٹیکس وصولی میں 14 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
(2) کل آمدنی میں سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 2,384 ارب روپے بنتا ہے جوکہ 2016-17ء کے نظرثانی شدہ ہدف 2,121 ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ ہے۔ یہ وسائل صوبائی حکومتیں انسانی تر قی اور لوگوں کی سیکیورٹی کے لئے خرچ کریں گی۔
(3) صوبائی حکومتوں کا حصہ نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کی بقیہ آمدنی 2017-18ء میں 2,926 ارب روپے متوقع ہے جوکہ 2016-17ء میں 2,616 ارب روپے ہے۔
(4)۔ 2017-18ء میں کل اخراجات کا تخمینہ 4,753 ارب روپے ہے جوکہ 2016-17ء کے نظرثانی شدہ اخراجات 4,256 ارب روپے سے 11.7 فیصد زیادہ ہے۔ کل اخراجات میں سب سے زیادہ اضافہ ترقیاتی بجٹ میں کیا گیا ہے۔
(5) دفاعی بجٹ کی مد میں نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق پچھلے سال کے 841 ارب روپے کی نسبت اس سال 920 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
(6) جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ PSDP بجٹ رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینے 715 روپے کی نسبت 40 فیصد اضافے کے ساتھ 1,001 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
(7) اوپر دیئے گئے آمدنی اور اخراجات کے تخمینوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سال بجٹ خسارہ کم ہو کر GDP کے 4.1 فیصد تک آیا ہے۔ گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ خسارے کا تخمینہ 4.2 فیصد ہے۔
(جاری ہے)
.