• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوستو آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ تھانے دار کا اپنا رعب، دبدبہ اور خوف ہوتا ہے۔ بہت سے شرفاء صرف اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اس کے کارندے بن جاتے ہیں ، بہت سے اپنی عزت محفوظ رکھنے کے خیال سے تھانے دار کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں اور کچھ چوہدری قسم کے لوگوں کو اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لئے تھانے دار کی سرپرستی اور اس کے ڈنڈے کے سائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ تھانے دار صاحب کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں، تحفے تحائف دے کر اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح یہ تمام حضرات اس کے تابع فرمان بن جاتے ہیں۔ جو تابع فرمانی نہیں کرتے یا کبھی کبھار سر اٹھا لیتے ہیں انہیں پہلے تو تھانے دار کی ’’گھوری‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر گھورنے سے عقل ٹھکانے نہ آئے تو پھر کبھی کبھار وارننگ جاری کرنی پڑتی ہے۔ آخری حربہ ڈنڈا ہوتا ہے۔ ڈنڈا زندہ باد۔ ڈنڈا علاج اے بگڑیاں تگڑیاں دا۔

اکلوتی سپر پاور ہونے کے ناتے آج کل امریکہ دنیا کا تھانہ دار بنا ہوا ہے۔ اسے کسی نے مقرر (Appiont) نہیں کیا، اس نے خود اپنا تقرر کر لیا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ دنیا نے بھی اس تقرر کو قبول کر لیا ہے کیونکہ امریکہ طاقتور ہے اور کسی بھی ملک کو ملیامیٹ کرنے کی صلاحیت یا طاقت رکھتا ہے۔ بھلا امریکہ کیوں طاقتور ہے؟ امریکہ کی طاقت کا راز اس کی سائنسی ترقی اور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی میں مضمر ہے۔ اگر صرف دولت سپر پاور بناتی تودنیا کے پچاس فیصد پٹرول کی مالک خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب سپر پاور ہوتے جبکہ امریکہ اتنا ’’سیانا‘‘ ہے کہ اس نے اپنے لاتعداد پٹرول کے ذخیرے مشکل وقت کے لئے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں اور خود عراق جیسی زیر نگیں ریاست اور دوسری وفادار مسلمان مملکتوں سے سستے داموں پٹرول لے کراستعمال کررہا ہے۔ جب ان ’’پٹرولیم‘‘ ملکوں کے پٹرول کے خزانے کمزور پڑ جائیں گے تو امریکہ اپنے ذخائر کا منہ کھولے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک سائنس پٹرول کا کوئی نعم البدل بنا لے اور پٹرول اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔

یہاں تک لکھ چکا ہوں تو مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آرہا ہے۔ مشرق پاکستان کا بحران عروج پر تھا تو روسی صدر پڈگورنی نے پاکستانی صدر یحییٰ خان کو ایک سخت ، تلخ اور درشت خط لکھا۔ اس خط میں ایک یہ فقرہ بھی شامل تھا کہ جو چیزیں ایک سپر پاور کے لئے جائز اور مناسب ہوتی ہیں وہ پاکستان جیسے عام ملک کے لئے جائز نہیں ہوتیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب امریکہ کے ساتھ ساتھ روس بھی سپر پاور تھا۔ مطلب یہ کہ سپر پاور تھانے دار ہوتی ہے جبکہ عام ممالک پیادے یا کانسٹیبل ہوتے ہیں اس لئے دونوں کا آپس میں کیا موازنہ۔ عالمی سیاست بھی قومی یا ملکی سیاست کی مانند بڑی ظالم ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مجھے تو یوںلگتا ہے جیسے سیاست کے سینے میں پتھر ہوتا ہے جس پر محبت، ہمدردی، حسن سلوک قسم کے جذبے اثر انداز نہیں ہوتے۔ ملکی سیاست ہو یا بین الاقوامی سیاست ان کا بنیادی اصول دوسروں کو استعمال کرنا اوراستعمال کے بعد پھینک دینا ہوتا ہے۔ یہاں دوستی، تعلق اور محبت مفادات کے تابع ہوتی ہے بلکہ مشروط ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں دوستیوں کے رنگ جلد جلد بدلتے رہتے ہیں، پیادے، خدمت گار، حواری، درباری اور وفاداری کا دم بھرنے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بنیادی اصول ضرورت ہے اورسیاست کی دنیا صرف ضرورت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

اس میں پریشان یا حیران ہونے کی بھی ضرورت نہیں کہ سیاست میں قدو قامت اور حیثیت دیکھ کر سلوک یا حسن سلوک کیا جاتا ہے۔ عالمی سیاست میں بھی قوموں اور ملکوں کی قیمتیں ان کا قدوقامت اور ’’استعمال‘‘ دیکھ کر لگائی جاتی ہیں اور اسی حوالے سے ان کو تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں۔ بلاشبہ سعودی عرب ہمارا نہایت مخلص اور قلبی دوست ہے اور ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیتا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم سعودی عرب سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کا عالمی سیاست میں کوئی قدوقامت بڑھ گیا ہے کہ وہ برادر ملکوں سے امریکہ جیسے حسن سلوک کی توقع رکھے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت کا بھی1998 سے لے کر 2000 تک شوروغوغا تھا۔ کارگل آپریشن کی خفت، مشرف کا تختہ الٹنا اور پھر میاں صاحب کے خاندان کا سعودی عرب میں پناہ گزین ہونا ایسے واقعات تھے جنہوں نے ہمارے ایٹمی دبدبے سے ہوا نکال دی اور عرب ممالک میں پاکستان کو بے وقار کردیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہماری برباد معیشت نے رہی سہی کسر نکال دی اور ہمیں دست نگر بنا کر رکھ دیا۔ کشکول اور وقار ایک دوسرےکے دشمن ہیں۔

میاں صاحب وطن واپس لوٹے تو ہمارے سیاسی کارکنوں نے بڑھکیں ماریں کہ سعودی حکمران نے انہیں اپنے جہاز میں دو بلٹ پروف کاروں کے تحفے کے ساتھ وطن بھیجا ہے۔ گزشتہ دنوں جنرل پرویز مشرف ایک پرائیویٹ چینل پہ فرما رہے تھے کہ سعودی بادشاہ نے انہیں چند لاکھ پونڈ کا گھر لندن میں خرید کر دیا ہے اور کچھ رقم ان کے اکائونٹ میں منتقل کی ہے۔ اس سے پہلے بھی ہمارے کئی حکمرانوں کو چند لاکھ ڈالروں کے عوض شکر گزار یا احسان مند بنایا جاتا رہا ہے۔ اب آپ مختصر طور پر ملاحظہ فرمائیے ان تحائف کی فہرست جو سعودی فرماں روا کی جانب سے ریاض کانفرنس کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کو دیئے گئے۔ اگرچہ یہ فہرست غیر مصدقہ اور نامکمل ہے لیکن اپنے تیور کے حوالے سے مصدقہ ہی لگتی ہے۔

1۔بیش بہا قیمتی اورنایاب ہیرا۔ 2۔خالص سونے سے تیار کردہ بندوق۔ 3۔25کلو وزنی سونے کی تلوار جس پر ہیرے نصب ہیں قیمت 200ملین ڈالر۔ 4۔سونے اور ہیروں سے تیار کردہ 25گھڑیاں۔ 5۔ہیروں جواہرات سے سجے 150عبابہ۔ 6۔ 800ملین ڈالر کی قیمتی کشتی جس میں 80کمرے ہیں۔ اسے امریکی بحریہ کے ذریعے امریکہ پہنچایا جائے گا۔ 7۔اصل تحفہ 400ارب ڈالر کی ڈیل ہے جس کے تحت امریکہ سے اسلحہ ہتھیار وغیرہ خریدے جائیں گے۔

فہرست شاید مکمل نہیں لیکن اس پر نظر ڈالنے سے تھانے دار اور کانسٹیبل یا پیادے کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ اپنی حیثیت اور مقام پہچان لیجئے اور توقعات کو محدود کر لیجئے کیونکہ ملکی و قومی سیاست کی مانند عالمی سیاست کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا۔ امید ہے جلد ہی جنرل راحیل شریف کو بھی لگ پتا جائے گا کہ پاکستانی فوج کی سربراہی اور چیف ہونے میں اور 29 غیر ملکوں کی فوج کی سربراہی میں کیا فرق ہے؟ یہاں حاکم وہاں ملازم؟

نوٹ: میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو اس لئے محسن تھر (سندھ) کہتا ہوں کہ انہوں نے تھر کے بے آب و گیاہ علاقے میں چار سو کنوئیں کھود کر لاکھوں انسانوں اور جانوروں کی پیاس بجھائی ہے۔ وہ شام کے یتیم بچوں، بیوائوں اور بے بس مہاجرین کی بھی خدمت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے جو حضرات اس کارخیر میں حصہ لینا چاہیں وہ ڈاکٹر ادریس 03007545560 یا محمد اشفاق 03009417290 سےرابطہ کریں۔
تازہ ترین