• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بٹوارے کی فائل پر انگریز کےآخری دستخط کے بعد چودہ اور پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کی شب ہندوستان انگریز کے تسلط سے آزاد ہوا۔ ہندوستان کے دو حصوں پر پاکستان بنا اور ہندوستان میں صدیوں سے بسنے والے کروڑوں مسلمان نفسیاتی طور پر دو نمبر کے شہری Second grade citizens اور اپنے ہی ملک میں Minority یعنی اقلیت بن گئے۔ وہ اپنے ہی وطن ہندوستان میں خود کو اجنبی اور اکھڑا اکھڑا uprooted محسوس کرنے لگے۔ مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ تھلگ ملک پاکستان بن جانے کے بعد ان کو اپنے ہندوستان میں رہنے کا جواز سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بٹوارے کی رات کے بعد وہ زبان جو کراچی سے کلکتہ اور کشمیر سے کیرالہ تک بولی اور سمجھی جاتی تھی، یعنی اردو کے لئے تکلیف اور آزمائش کا دور شروع ہوا جو کہ پندرہ بیس برس تک جاری رہا۔ بٹوارے سے پہلے ایک ہی زبان کی دو صورتیں اور دو نام تھے۔ فارسی رسم الخط میں لکھیں تو اردو اور ہندی رسم الخط میں لکھیں تو ہندوستانی۔ بٹوارے کے بعد ہندوستانی زبان میں ثقیل ہندی اور سنسکرت کے الفاظ ٹھونسے گئے۔ یہ وبا ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی سرایت کر گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اردو کے متبادل نئی ہندوستانی زبان ناقابل فہم ہوتی گئی۔ بنگالی، گجراتی، مدراسی، تامل، مراٹھی اوردیگر زبانیں بولنے والوں کے لئے ہندی اور سنسکرت الفاظ سے لبریز ہندوستانی زبان ناقابل فہم ہوتی گئی۔ ہندوستان کو اردو سے کوسوں دور کرنے کے جنون میں ہندوستانی زبان کو عام ہندوستانی کے لئے نامانوس اور بیگانہ بنادیا گیا۔ اس صورت حال میں اردو نے پھر سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالی۔ یہ الگ بات ہے کہ سلیس اردو میں بننے والی فلموں کو ہندی فلم ہونے کا سینسر سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو پھر سے یہ حقیقت سمجھ میں آنے لگی کہ زبان انسان کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔ زبان ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور یہودی نہیں ہوتی۔ اگر اردو مسلمان یا مسلمانوں کی زبان ہوتی تو پھر پریم چند۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سرلا دیوی، ایندر ناتھ اشک، جگندریال، گوپی چند نارنگ، رام لال فراق گورکھ پوری، سمپورن سنگھ کالرا جو کہ گلزار کے نام سے مشہور ہیں، ورما ملک اور بے شمار ہندو اور سکھ ادیب اردو کو اظہار کا ذریعہ کیوں بناتے؟ خوب صورت اور کبھی نہ بھولنے جیسے اشعار، افسانے اور ناول مسلمانوں کی زبان میں کیوں لکھتے؟
جن دنوں ہندوستان میں اردو کے لئے جگہ تنگ کردی گئی تھی، ان دنوں کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے اردو ادب کو بے مثال تحریریں دی تھیں۔ یہ کوئی پچپن ساٹھ برس پرانی باتیں ہیں۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کے دور کی باتیں ہیں۔ ماہنامہ شمع دہلی میں کرشن چندر کا ناول ایک گدھے کی سرگزشت قسط وار شائع ہورہا تھا۔ اس ناول نےہندوستان کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی۔ کھلبلی مچادی تھی۔ کتابی صورت میں شائع ہونے کے بعد ناول ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں کاپیاں بکی تھیں۔ کرشن چندر نے اسی ناول کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرا ناول ’’گدھے کی واپسی‘‘ لکھا۔ اس ناول کی بھی لاکھوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔ کرشن چندر نے کسی کی پروا کیےبغیر لگاتار ناول اور افسانے اردو میں لکھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اردو ادب میں آج تک کسی ادیب کے ناول اور افسانوں کے مجموعے اتنی تعداد میں شائع ہوئے ہوں گے اور بکے ہوں گے۔ کرشن چندر نے تن تنہا اپنے زور قلم سے ہندوستان میں اردو مخالفت کی کمر توڑ دی تھی۔ کرشن چندر نے ثابت کردیا تھا کہ اردو دل میں اتر جانے والی ایک بے حد خوب صورت زبان ہے۔ خوبصورتی نہ ہندو ہوتی ہے۔ خوبصورتی نہ مسلمان ہوتی ہے۔ خوبصورتی نہ عیسائی ہوتی ہے اور نہ یہودی ہوتی ہے۔ خوبصورتی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ خوب صورتی بذات خود ایک ایسا عقیدہ ہوتی ہے جس کا کوئی منکر نہیں ہوتا۔
اردو مخالف دور میں ایک ہندو ادیب نے لگاتار المیہ رومانی ناول لکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ نقادوں کے تجزیوں میں اس شخص کی تحریروں کو کوئی خاص اہمیت تو نہ مل سکی لیکن وہ پڑھنے والوں کا چہیتا ناول نگار بن گیا۔ فلم انڈسٹری والوں نے اس کے لئے اپنے دروازے کھول دیے۔ اس کے ناول پر اور کہانیوں پر فلمیں بنیں۔ اس شخص کا نام تھا دت بھارتی۔ یہاں ہر ایک وضاحت میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ہندوستان میں اردو مخالف دور میں خواجا احمد عباس، قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی اور دیگر بے شمار مسلمان شاعر اور ادیب اردو میں لکھ رہے تھے۔ وہ محض اس لئے اردو میں نہیں لکھ رہے تھے کہ اردو مسلمانوں کی زبان تھی اور وہ سب مسلمان تھے۔ یہ ناقص سوچ ہے۔ ایک خوبصورت زبان ہونے کے ناطے وہ سب اردو میں لکھ رہے تھے جس طرح کرشن چندر اردو میں لکھ رہے تھے۔ اردو اظہار کا ذریعہ ہے۔ اور ذریعہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ آپ بذریعہ ٹرین کراچی سے لاہور جاتے ہیں۔ ٹرین میں آپ کے ساتھ عیسائی، ہندو، یہودی سفر کرتے ہیں۔ مگر ٹرین، جو کہ ذریعہ ہے آپ کو لاہور لے جانے کے لئے اس کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تقسیم ہند کے بعد خونریز فسادات میں ہندو اور مسلمان نے ایک دوسرے کو چھریوں، خنجروں، تلواروں اور کلہاڑیوں سے کاٹ ڈالا تھا۔ مرنے اور مارنے والے ہندو اور مسلمان تھے۔ مگر چھریوں، خنجروں، تلواروں اور کلہاڑیوں کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ میں اردو کو کبھی بھی محدود نہیں دیکھتا۔ اردو لامحدود ہے۔ برصغیر میں ہر مذہب، عقیدت اور زبان سے تعلق رکھنے والے بے شمار ادیبوں نے اردو میں لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں، خاص طور پر پنجابیوں نے۔ مشتاق احمد یوسفی کتنا اچھا لکھتے ہیں۔ ان کی مادری زبان گجراتی ہے۔
کرشموں اور معجزوں کا راستہ کوئی روک نہیں سکتا۔ سنسکرت اور ہندی الفاظ اور محاوروں سے لبریز اردو کی نعم البدل یا جڑواں بہن ہندوستانی زبان ذریعہ ابلاغ نہ بن سکی۔ اردو تکلیف دہ پندرہ بیس برسوں کے بعد پھر سے ہندوستان میں مختلف زبانیں بولنے والوں کی اپنی زبان بن گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب کے نام پر لوگوں میں تفریق پیدا کرنے والے اب بھی اردو کو اردو کہنے کے بجائے ہندوستانی کہتے ہیں۔ اردو میں بننے والی سینکڑوں فلموں کو وہ اب بھی ہندی فلم کہتے ہیں۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے! کیرالہ سے کشمیر اور بنگال سے بنگلور تک ہندوستانیوں کی زبان اردو ہے۔ کہنے والے بضد ہیں کہ وہ ہندوستانی زبان ہے۔ مگر ہندوستانی زبان ہندی اور سنسکرت کے ٹھونسے ہوئے الفاظ کے بوجھ سے آزاد ہوچکی ہے۔ وہ اردو ہے۔



.
تازہ ترین