• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطالبات کے بجائے متبادل تلاش کرنے کی ضرورت,,,,ملک الطاف حسین

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیرجنرل جیمز جونز گزشتہ دنوں اسلام آباد دورے پر تشریف لائے صدر زرداری ، وزیراعظم گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اور تفصیلی مذاکرات ہوئے۔ خبروں کے مطابق صدر پاکستان نے کہا ڈرون حملے ہماری سالمیت کے خلاف ہیں امریکی حکومت ٹیکنالوجی پاکستان کو دے جبکہ وزیراعظم نے کہا امریکہ بھارت سے کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کرائے جنگ میں پاکستان کا بھاری معاشی نقصان ہوا ہے امریکہ قرضے معاف کرے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے جواب میں کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی پاک فوج کا کامیاب آپریشن قابل تحسین ہے۔
اکتوبر 2001ء کے بعد جب صدر مشرف نے افغان پالیسی میں یوٹرن لیا اور افغانستان پر اتحادی افواج کی جارحیت میں بھی حصے دار بن گئے تو اس وقت سے لیکر طویل المدتی تعلقات کی خواہش سمیت ایسے بیانات بھی بے حساب ہیں کہ جو پاک امریکہ تعلقات میں قریبی تعاون کو ظاہر کرتے ہیں تاہم ایسے بیانات بھی بے شمار ہیں کہ جن میں پاکستانی حکمرانوں کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا گیا۔ پاکستان کی سرحدوں اور سالمیت کے احترام کے وعدوں اور بیانات کے باوجود پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کو جاری رکھا گیا ہے جبکہ اسی طرح سے مسئلہ کشمیر کے حل کی اعلیٰ سطح پر یقین دہانیوں کے بعد ابھی اس دیرینہ مسئلے اور کور ایشو کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں دی گئی بلکہ اب تونوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ بھارت کی سرحدوں پر موجود پاکستانی فوج کو ہٹانے کے لئے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر کے بھارت کو پاکستان سے افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ممالک کیلئے تجارتی راہداری دینے کے علاوہ پاک بھارت سرحدوں پر دوستانہ ماحول پیدا کرنے میں امریکہ نے کافی کچھ حاصل کر لیا ہے۔صدر جنرل مشرف اورصدر زرداری کے ادوار حکومت کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام با اختیار اور برسر اقتدار شخصیات نے امریکی دباؤ اور خواہش کو ممکن حد سے بھی بڑھ کر پورا کرنے کی کوشش تو کی کہ جس کا تمام تر فائدہ بھارت سمیت افغانستان پر قابض اتحادی افواج، کابل کی کٹھ پتلی حکومت اور امریکہ کو پہنچا تاہم ایسا کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا کہ جس سے پاکستانی مفادات کو کوئی فائدہ پہنچا ہو۔ پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ کردی گئیں، ڈرون حملوں نے پاکستان کی خود مختاری کو زبردست دھچکا پہنچایا، صوبوں میں علیحدگی کی آوازیں اٹھنے لگیں، پاکستان کا نقشہ تبدیل کر دینے کی خبریں آنے لگیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے اور انہیں بعد ازاں امریکی حفاظت میں رکھنے یا لے جانے کی باتیں ہونے لگیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تشدد ، ظلم، دہشت گردی اور ناجائز قبضہ کی حوصلہ افزائی کی گئی بھارت کے ساتھ سول جوہری معاہدہ کرکے نہ صرف پاکستان کو کمزور اور کارنر کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ امریکہ خطہ میں بھارت کو معاشی، اقتصادی اور فوجی لحاظ سے ایک بالادست قوت بنانا چاہتا ہے جبکہ افغانستان میں اتحادی افواج کی ناکامی اور امریکی شکست کا بدلہ لینے کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو میدان جنگ بنا دیا گیا ہے۔حیرت ہے کہ جنرل مشرف سے زرداری تک پاکستان کے حکمرانوں تک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جو امریکہ کا حلیف اور غیر نیٹو اتحادی بننے کے مضمرات اور نقصانات کا کوئی حقیقت پسندانہ تجزیہ کر پاتا بس ایک روایت ڈال دی گئی ہے کہ امریکہ سے جو بھی جنرل یا سفارت کار دورے پر آئے تو اس کے سامنے اپنے مطالبات کی ایک فہرست رکھ دی جائے جبکہ دوسری طرف سے بھی غالباً یہ تہیہ کر لیا گیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے مطالبات خندہ پیشانی کے ساتھ سن کر بات پھر وہی کی جائے جو امریکہ چاہتا ہے جو برطانیہ، اسرائیل اور دیگر کے مفاد میں ہو پاکستان کے ہر مطالبے کو ”یقین دہانی“ کے خوبصورت الفاظ میں نظر انداز کردینا امریکی مہمانوں کا ایک معمول بن گیا ہے پاکستان اپنے محل وقوع سمیت دیگر دستیاب وسائل کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگر وہ امریکی اتحاد سے علیحدہ یا غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کر لے تو امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان سمیت پورے خطے میں گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے یہ پاکستان ہی کا سہارا ہے کہ اب تک اتحادی افواج افغانستان اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں اپنی ٹانگوں پر گھوم رہی ہیں تاہم اس ملک کو امریکی حکمرانوں، اتحادی جرنیلوں اور سفارتکاروں نے سب سے زیادہ آسان سمجھ لیا ہے جسکی وجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے حکمرانوں اور جرنیلوں میں امریکہ کے سامنے مطالبات رکھنے کا حوصلہ تو بہت زیادہ ہے مگر ان مطالبات کے پورے نہ ہونے کی صورت میں کسی ردعمل کا کوئی خدشہ یا امکان نہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اور بالخصوص پاک امریکہ تعلقات میں دوطرفہ اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کا تاثر مکمل طور پرختم ہو کر رہ گیا ہے۔
خارجہ پالیسی منتخب نمائندوں اور عوامی امنگوں کی ترجمان نہیں بلکہ ان چند خوفزدہ افراد کے انفرادی فیصلے ہیں کہ جو بااختیار اور برسر اقتدار تو ہیں لیکن انہیں پاکستان کی ایٹمی قوت، ملٹری پاور اور 17 کروڑ بہادر عوام کی پشت پر موجود ہونے کا احساس نہیں شاید ان کا خیال ہے کہ تصادم سے گریز میں امن اور سلامتی کی ضمانت ہے حالانکہ تاریخ اور فطرت اس نظریئے کی نفی کرتے ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی طوفان کا رخ موڑنے کے لئے ڈٹ جانا اور کسی بھی جارح کو پسپا کرنے کیلئے مقابلہ کرنا ضروری ہے آزادی کو بھیک سے اور وقار کو جھک کر برقرار نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ سپر پاور کی اہمیت کو تو تسلیم کیا جا سکتا ہے مگر ان کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اگر ایسا ہو تو پھر چھوٹے اور کمزور ممالک اپنی آزادی اور وقار کی حفاظت نہیں کر پائیں گے۔
ہمیں ایک زندہ قوم کی حیثیت سے موجودہ مشکل صورت حال کو قومی اتفاق رائے، خود انحصاری، تدبر، جرأت اور ایک اللہ پر بھروسے، اپنے مفادات کے حصول اور حفاظت کے طریقہٴ کار کا از سر نو تعین کرنا ہوگا۔ اس لئے پاکستان اور عالم اسلام کی قیادت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ امریکہ تب تک کسی بھی مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دے گا جب تک وہ خود کمزور ہونا شروع نہیں ہوگا۔ یہ وقت امریکہ کو مضبوط کرنے کا نہیں کمزور کرنے کا ہے ایسا ہونا جنوبی ایشیاء سمیت عالمی امن کیلئے ضروری ہے امریکی مداخلت اورجارحیت اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ امریکیوں کے نزدیک ہمارے مطالبات اور خواہشوں کی اب کوئی اہمیت نہیں وہ جلد از جلد اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے آخری مرحلے پر امریکہ اور بھارت کا پاکستان پر مشترکہ حملہ شامل ہے۔
تازہ ترین