• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے صوبوں کا مطالبہ۔ امریکی ایجنڈے کاحصہ؟ ,,,,ملک الطاف حسین

نئے صوبوں کی تشکیل کے مطالبے کو امریکی ایجنڈے کا حصہ قرار دینے سے یقیناً ہمارے ان دوستوں کو افسوس ہوگا کہ جو نیک نیتی کے ساتھ نئے صوبوں کی انتظامی تشکیل کے ذریعے عوام کے مسائل حل کرنے اور علاقے کو ترقی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آئیے سب سے پہلے ”امریکی ایجنڈے“ کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کرنے والوں کا بظاہر ایک درست مطالبہ‘ ایک غلط مطالبہ کیوں ہے؟ امریکہ پاکستان کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتا ہے جس کے لئے امریکہ نے کئی طرح سے منصوبہ بندی کررکھی ہے‘ پاکستان کے ایٹمی اثاثے‘ ملٹری پاور‘ قومی اتحاد اور اسلامی نظریاتی قوت امریکہ کا ہدف ہیں۔ اسلامی نظریاتی قوت کو روشن خیال اور سیکولر قیادت کے ذریعے کمزور کیا جارہا ہے۔ ملٹری پاور کو اندرون ملک حالت جنگ میں لاکر کمزور کیا جارہا ہے‘ ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی قوت کو کمزور ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے اور قومی اتحاد کو فرقہ واریت سمیت صوبائی اور لسانی تعصب کے ذریعے تقسیم در تقسیم کے مرحلوں سے گزار کر کمزور کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان کے مالی وسائل کو نام نہاد انسداد دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر پاکستان کو اقتصادی و معاشی ترقی کو زوال اور زبوں حالی کی طرف لے جایا جارہا ہے۔
بہرحال امریکی ایجنڈے اور عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم موجودہ صوبوں کی تقسیم اور نئے صوبوں کی تشکیل کے مطالبے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کسی بھی حوالے سے ایسی کوئی سچائی اور حقیقت نظر نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ صوبے چار ہوں یا چالیس وہ ایک ملک اور ایک جھنڈے سے منسلک ہیں لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے کہ سب سے پہلے ملک کو مضبوط اور محفوظ بنایا جائے۔ مضبوط پاکستان چار سے زائد صوبوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے لیکن کمزور پاکستان موجودہ صوبوں کے بوجھ سے بھی لڑ کھڑا کر گرسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بھارت حملے کے لئے پوری طرح تیار ہے‘ افغانستان میں اتحادی افواج میں اضافہ ہورہا ہے‘ ڈرون حملے بند ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں‘ امریکہ پاکستان کا گھیرا تنگ کرتا آرہا ہے‘ دو صوبے ”ملٹری آپریشنز“ کی زد میں ہیں۔ تو کیا یہ وقت کوئی ایسا وقت ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کیا جائے۔
نئے صوبوں کی تشکیل کے مطالبے کو اچانک اس مرحلے پر سامنے کیوں لایا گیا جبکہ عوام کے اندر لوڈ شیڈنگ‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور امن و امان کی ناقص صورت حال کی وجہ سے سخت بے چین اور ناراض ہے۔
کیا عوام کے اندر سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا‘ نئے صوبوں کا مطالبہ کرنے والے سیاستدان موجودہ چار صوبوں کو کہاں تک ترقی دینے میں کامیاب ہوئے‘ کیا 1973ء کے آئین کے تحت موجودہ صوبوں کو خود مختاری دے دی گئی اور اگر نہیں دی گئی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مزید صوبوں کو صوبائی خود مختاری مل پائے گی۔
پاکستان کے موجودہ مالی وسائل اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ نئے صوبوں کی نئی انتظامیہ کے اخراجات کا بوجھ اٹھایا جاسکے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل کی ایک بڑی وجہ ان سیاسی خاندانوں کی ضرورت ہے کہ جو موجودہ صوبوں میں اقتدار حاصل کرنے سے قاصر ہیں یا یہ کہ ان کی باری بہت دیر سے آتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ مطالبہ کرنے والے سب سے پہلے اپنی پارٹیوں کی سینٹرل کمیٹیوں سے متفقہ قرار دادیں منظور کیوں نہیں کراتے۔ دوسری جماعتوں سمیت بالخصوص 18 فروری کو بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کا موٴقف اور نقطہ نظر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر نئے صوبوں کا مطالبہ کوئی مفید مطالبہ ہے تو اسے فوری انتظامی فیصلہ بنانے کے بجائے عام انتخابات میں عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیاجائے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں نئے صوبوں کی تشکیل کا نعرہ لگانے والوں کو کہاں تک پذیرائی اور حمایت دیتے ہیں‘ عوام کو اعتماد میں لئے بغیر پروپیگنڈے کے ذریعے ”واردات“ کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟
سوال یہ ہے کہ اگر لسانی اور علاقائی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل کی جائے تو پھر پاکستان میں مزید کتنے صوبے وجود میں لانا ہوں گے اگر جاوید ہاشمی کی بات درست ہے تو پھر ڈاکٹر قادر مگسی کی بات بھی درست ہے‘ اگر محمد علی درانی ٹھیک کہہ رہے ہیں تو پھر اختر مینگل بھی صحیح ہے‘ جناح پور سے بہاولپور تک‘ پشاور سے ہزارہ تک اور پھر پشین سے کوئٹہ تک جو پنڈورا بکس کھلے گا اس کو کس طرح سے دوبارہ بند کیا جائے گا؟ لہٰذا ہمارا خیال یہ ہے کہ جس طرح سے 1973ء کے آئین کو تحلیل کرکے نیا آئین بنانا مشکل اور سخت نقصان دہ ہوگا۔ اسی طرح سے موجودہ چار صوبوں کی جگہ نئے صوبوں کی تشکیل کا فیصلہ بھی انتہائی غلط ہوگا۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اسلام ہی سے وابستگی اور وفاداری کی بنا پر قائم اور دائم رہے گا‘ یہ اس کی فطری ضرورت ہے اگر پاکستان کو اس کی اصل شناخت یعنی ”اسلامی نظام“ سے ہمکنار نہیں کیا گیا تو ایسی صورت میں صوبے چار سے چالیس ہوجائیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ برآت صوبوں کی تعداد بڑھانے میں نہیں قرآن و سنت کے قوانین نافذ کرنے میں ہے۔ لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ کے اقرار کے بعد جس طرح کی ذمہ داری اور فرض ہم پر عائد ہوتا ہے اسے سمجھنا چاہئے‘ مومن کمزور ہوسکتا ہے مگر مجبور نہیں‘ مجاہد قتل ہوسکتا ہے مگر سرنڈر نہیں‘ امت پر مشکل وقت آسکتا ہے مگر کفر کا غلبہ نہیں‘ ہم آپس میں ناراض ہوسکتے ہیں مگر نفرت اور تصادم نہیں‘ دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے پیارے نبی پاک محمد کے صدقے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہنے اور اس پاکستان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے بے پناہ اور ناقابل فراموش قربانیاں دیں اور جو آج عالم اسلام کا سب سے طاقتور اور قابل فخر ملک ہے، آمین ثم آمین۔
تازہ ترین