قائد تحریک جناب الطاف حسین نے حال ہی میں دو معاملات پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے سوموٹو نوٹس لینے کی استدعا کی ہے۔۵ جولائی کو اپنے پہلے کھلے خط میں چیف جسٹس آف پاکستان پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غریب اور محروم طبقہ کے لئے مسیحا قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے اس بات کا پتہ لگائیں کہ 1971ء سے 2009ء تک قومی بنکوں کی طرف سے کھربوں روپے کے قرضے کن کن جرنلوں، جاگیرداروں، سرکاری افسروں اور صنعت کاروں کو معاف کیے گئے۔ قائد تحریک نے مطالبہ کیا کہ قوم کی یہ لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے اور ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ تقریباً گیارہ روز بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے چیف جسٹس کے نام دوسرا کھلا خط لکھا جس میں اپیل کی گئی ہے کہ 1992ء کے آپریشن میں لاپتہ ہونے والے ایم کیو ایم کے 28 کارکنوں کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں۔ اپنے کھلے خط میں جناب الطاف حسین نے کہا ہے کہ 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں ہزاروں کارکنوں، ہمدردوں اور ان کے رشتہ داروں کو شہید کیا گیا لیکن آج تک کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ قائد تحریک نے اپنے اس کھلے خط کے ساتھ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدی کو 28لاپتہ کارکنوں کے نام اور دیگر کوائف بھی منسلک کئے۔ الطاف حسین نے کہاکہ چیف جسٹس خود لاپتہ کارکنوں کے اہل خانہ سے حقائق سنیں اور اس سلسلے میں حکومت کو کوئی حکم جاری کریں تاکہ کارکنوں کو غائب کرنے والے عناصر سے لاپتہ کارکنوں کے اہل خانہ سمیت پوری قوم آگاہ ہوسکے۔
یقینا اپنے کھلے خطوں کے ذریعے جناب الطاف حسین نے دو نہایت ہی اہم قومی معاملات پر پوری قوم کی توجہ مرکوز کی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ۶۱ مارچ ۹۰۰۲ سے پہلے کی جسٹس افتخار سے اپنی تمام تر مخالفت کے باوجود الطاف حسین نے چیف جسٹس پر اپنے مکمل اعتباد کا اظہار کیا۔ بجا طور پر الطاف حسین صاحب نے ایک طرف عوام کے ان کھربوں روپے کی بات کی گئی جو اس ملک کا بااثر طبقہ بنکوں سے قرض لے کر ہڑپ کر گیا اور ان لٹیروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی طرح بلاشبہ کسی بھی معصوم کا قتل یا کسی بھی شہری کا غائب کیا جانا خواہ ایسے افراد کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی پارٹی یا گروہ سے ہو ایک ایسی ناانصافی ہے جس کا سدباب نہایت ضروری ہے اور اس کے لئے ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہے۔ لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ قائد تحریک کا مطالبہ جن معاملات سے ہے ان کا تعلق حکومت سے ہے اور جناب الطاف حسین کی اپنی پارٹی نہ صرف آج حکومت میں ہے بلکہ پچھلے سات سال سے اقتدار میں ہے۔ سابقہ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم نہ صرف مرکزی بلکہ سندھ حکومت کا بھی حصہ رہی۔ اس کے علاوہ قائد تحریک اور ان کی پارٹی نے ہرمعاملہ میں بھرپور طریقے سے جنرل مشرف کا ساتھ دیا اور ان کے اقدامات بشمول 3نومبر 2007ء کے غیرآئینی ایکشن کا مکمل ساتھ دیا۔ مشرف کی رخصتی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے آنے کے بعد ایم کیو ایم دوبارہ مرکزی اور سندھ حکومت میں شامل ہو گئی ۔ اس طرح 2002ء سے آج تک ایم کیو ایم خود حکومت کا حصہ ہے۔ اس پارٹی کا نہ صرف سندھ میں گورنر ہے بلکہ کئی صوبائی و مرکزی وزارتیں بھی ایم کیو ایم کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر کے پاس ہیں۔ دلچسپی کا امر یہ ہے کہ قائد تحریک نے جو مسئلے اٹھائے ہیں ان کا سوفیصد تعلق حکومت سے ہے جس کا ان کی پارٹی حصہ ہے۔
اگر چیف جسٹس ان دونوں معاملات میں سوموٹو نوٹس لیتے ہیں تو پھر بھی ان کو حکومت سے ہی بازپرس کرنی پڑے گی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ قائد تحریک ایک ایسے معاملہ میں جہاں حکومت سے جوابدہی طلب کی جانی چاہئے عدالت عظمی سے سوال کیوں کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم تو خود حکومت کا حصہ ہے۔ یہ مطالبے تو حکومت کے سامنے پیش کئے جانے چاہئیں۔ کچھ لوگوں کی میں قائد تحریک کی طرف سے محض ایک سیاسی چال چلی گئی ہے۔ اپنے آپ کو ان معاملات میں مخلص ثابت کرنے کے لئے جناب الطاف حسین کو حکومت کے سامنے یہ مطالبات پیش کرنے پڑیں گے اور اگر ان کی بات کی شنوائی نہیں ہوتی تو یہ ایسے معاملات ہیں جہاں ایم کیو ایم اپنے آپ کو حکومت سے بھی علیحدہ کرسکتی ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف چیف جسٹس سے شکایت کرنا کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پچھلے سات سالوں میں ایم کیو ایم نے ان معاملات پر حکومت میں رہتے ہوئے بھی تحقیقات کیوں نہ کروائیں۔ بارہا ایم کیو ایم نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر مختلف حکومتوں سے علیحدہ ہونے کا عندیہ دیا مگر اٹھائے گئے ان دونوں معاملات پر قائد تحریک کی پارٹی نے ماسوائے چیف جسٹس کو کھلا خط لکھنے کے کوئی سنجیدہ کاوش شاید نہیں کی۔ مناسب تو یہی ہوگا کہ الطاف بھائی اور ان کی پارٹی حکومت پردباؤ ڈالیں کہ قومی دولت کے لٹیروں کا محاسبہ کیاجائے اور یہ کہ معصوموں کے قاتلوں کو بے نقاب اور غائب کئے گئے افراد بازیاب کرائے جائیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ الطاف بھائی ایک قومی لیڈر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان معصوموں کے قتل کی انکوائری کا مطالبہ بھی کرتے جن کو 12مئی 2007اور 9اپریل 2008کوکراچی میں بے دردی سے مارا گیا۔ ایم کیو ایم کے گمشدہ کارکنوں کی بازیابی کے ساتھ ساتھ کیا قائد تحریک کو ان افراد کی بازیابی کا مطالبہ بھی نہیں کرنا چاہئے تھا جن کو مشرف دور میں امریکہ کی نام نہاددہشتگردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ڈالروں کے عوض بیچا گیا۔نجانے کتنے معصوموں کو محض امریکہ کی خوشنودی کیلئے دہشتگرد اور عسکریت پسند کا لقب دیکر قتل کیا گیا۔اگر1992اور 1995-96میں کراچی میں بہت سوں کا ماروائے عدالت قتل کیا گیا تھاتو کیا ایسا ہی بلوچستان سرحد اور قبائلی علاقوں میں لاتعداد افراد کے ساتھ نہیں ہوا۔کیا کراچی، سرحد، بلوچستان وغیرہ میں فوج،پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے سیکڑوں افسران اور اہلکاروں کو دہشتگردوں نے اپنے انتقام کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔بہتر ہوتا کہ جناب الطاف حسین کراچی کی طرح ملک کے دوسرے علاقوں میں ہونیوالی زیادتیوں کا بھی حساب مانگتے۔کاش لال مسجد میں سیکڑوں معصوم بچیوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے والے مشرف کو بھی کٹہرے میں لانے کی بات کرتے۔ میں ایم کیو ایم سے متفق ہوں کہ ان کی پارٹی کارکنوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہو گی مگر اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں دوسری سیاسی پارٹیاں بشمول جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ وغیرہ بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا مداوا چاہتی ہیں۔ان میں سے اکثر پارٹیاں اپنے اور اپنے کارکنوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دارایم کیو ایم کو ٹھہراتی ہیں۔ ان حالات میں' انصاف سب کے لئے اور احتساب سے کوئی بالاتر نہیں 'کے اصول پر ہی امن اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہ سکتی ہے۔