• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب کامران صاحب پر سید خورشید شاہ کا مبینہ جھوٹا الزام,,,,حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

افرادی قوت اور مزدوروں کے وفاقی وزیر سید خوشید شاہ نے تجویز پیش کی ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں حکمران مخلوط پارٹی اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہوں تاکہ ”جیو“ کے ممتاز تجزیہ نگار اور ممتاز براڈکاسٹر کامران خان کو رپورٹنگ کرنے سے روکا جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان الزامات کی تحقیق کی جائے جن کے مطابق کامران خان کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں افرادی قوت اور مزدوروں کی وزارت کرپشن میں بری طرح ملوث ہوچکی ہیں۔ بڑی بڑی عمارات کرپشن کے پیسے سے خریدی جارہی ہیں۔ سید خورشید شاہ نے کہا ہے جبسی وزارت کے خلاف کوئی الزام عائد کیا جائے تومتعلقہ وزیر کو اس کاذمہ دار قرار دیاجاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان الزامات کوغلط ثابت کرسکتے ہیں۔ سید خورشیدشاہ نے کہا کہ یہ کمیٹی کامران خان کو طلب کرے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کامران خان جیسے لوگوں کو منہ بند رکھنے کے لئے کہا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایوان کے وقار کو مجروح نہ کرسکے۔ یہ روایت رہی ہے کہ جمہوری حکومتوں کے خلاف ہمیشہ سازشوں کے جال بنے جاتے ہیں اوربعض عناصر ہمیشہ جمہوریت کو غیر مستحکم کرتے رہتے ہیں نیز کسی نے کسی ڈکٹیٹر کو آج تک چھوا نہیں۔ انہوں نے قانون منسوخ کئے، کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا، طالبانائزیشن کو مستحکم کیا اور ملک کو پانی اوربجلی کے بحران سے دوچار کیا۔ سید خورشید شاہ شاید بھول گئے ہیں کہ طالبانائزیشن کو ان کے دور میں فروغ ملا۔ نصیر اللہ بابر نے انہیں اپنے بچے قرار دیا اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کادعویٰ کیا۔ اس وقت سید خورشید شاہ کہاں تھے؟ طالبان کی سرپرستی کرنے کاالزام تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر بھی عائد کیا گیا تھا اگرچہ وہ اس سے انکارکرتی رہیں لیکن حقائق حقائق ہوتے ہیں انہیں چھپایا نہیں جاسکتا۔ سید خورشید شاہ کے لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سب سے پہلے افغانستان سے افغان مجاہدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی اوردوسروں کو پاکستان بلایا تاکہ کابل میں بغاوت کرائی جائے۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ملک ایک ختم نہ ہونے والی جنگ میں پھنس گیا اور آج تک پھنسا ہوا ہے، خدا خداکرکے اب پاک فوج نے اپنے چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مجاہدانہ قیادت میں ان عناصر کاقلع قمع کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ ایک جان جوکھوں کا کام تھا جسے پاک فوج نے بڑی قربانیاں دے کر انجام دیا لیکن طالبان اب بھی سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ سوات میں انہوں نے جو کچھ کیاہے کون اس سے بے خبر ہے؟ سوات اور دوسرے علاقوں سے اب تک 30لاکھ لوگ اپناگھربار چھوڑنے پرمجبور ہوئے ہیں جن کی مدد کے لئے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا حرکت میں آچکی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ باہرسے اتنی بھاری امداد آنے کے باوجود ان لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ بے سروسامانی کی حالت میں کیمپوں میں پڑے ہیں او ر کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ کوئی سید خورشید شاہ سے پوچھے کہ کامران خان نے کون سی غلط بات کی ہے۔ انہو ں نے ایک واضح حقیقت بیان کی ہے جس سے ساری دنیا واقف ہے۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ہم حیران ہیں کہ کس برتے پر سیدخورشید شاہ نے کامران خان پرجھوٹا الزام عائد کیا ہے۔ کیا وہ اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہیں؟ سید خورشید شاہ کے کامران خان پر الزامات ایسے ہی ہیں کہ بقول شاعر” تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو“۔
جناب کامران خان کی ایک اور خبر بھی دل ہلا دینے والی ہے۔ ا ن کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام اور پاور سیکٹر کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کوبروئے کارلانے کے ساتھ ساتھ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی اور واپڈا پراجیکٹس کو گیس کے ذخائر کو موثر اور بھرپور طریقے سے استعمال کرکے موجودہ فرق کو بآسانی پوراکیاجاسکتاہے لیکن حکومت 14رینٹل پاور پراجیکٹس کے منصوبوں پر 200 ارب روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس وقت 14400میگاواٹ بجلی طلب کے جواب میں واپڈا کی مجموعی پیداوار 12300میگاواٹ ہے۔اس حساب سے ملک کو قریباً 2150میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ PEPCO رواں مالی سال کے اختتام تک اپنے پاور پراجیکٹ کی تکمیل کااعلان کرچکا ہے جس کے نتیجے میں قومی گرڈ (GRID)میں 3500 میگاواٹ کااضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان کے اہم مالیاتی ادارے سٹیٹ بنک کی طرف سے پاکستان کے پرائیویٹ بنکوں پر دباؤ ڈالا گیا ہے جبکہ چند بنکوں نے رینٹل پاور پلانٹس کی امکانی معاونت کے بارے میں شدید مزاحمت پیش کی۔ انہیں نئے پاور جنریٹرز کی ضرورت پوری کرنی چاہئے۔ تیل کی درآمد سے پاکستان کے درآمدی بل پر شدید دباؤ پڑے گا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی تیل کی درآمدکی وجہ سے فی بیرل قیمت میں ایک ڈالر اضافے کا مطلب یہ ہوگا کہ 10کروڑ ڈالر کااضافہ پاکستان کے امپورٹ بل میں ہوجائے گا۔ خدانخواستہ تیل کی قیمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے تو پاکستان کا تجارتی خسارہ بہت بڑھ جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ ایسے ملک کے اعداد و شمار ہیں جو پہلے ہی 50ارب ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہے پھر بھی اس کے حکمران اپنے اللے تللوں سے باز نہیں آتے۔ کرائے کے ان منصوبوں کے لئے جو مہنگا تیل درآمد کیا جائے گا، تیل کی قیمت مزید بڑھنے سے پاکستان کی برآمدات مزید مہنگی ہو جائیں گی اور ہمار ے لئے خطے کے دیگرملکوں کے ساتھ مقابلہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ نتیجتاً پاکستان کے برآمدی ہدف کو پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ رینٹل پاور پروڈیوسرزکی جانب سے اپنے فائدے کے لئے ایک نئی تحریک شروع کی گئی ہے جس میں 6فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس کو بھی موخر کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال موجودنہیں ہے۔ یہ سارا معاملہ پراسرار دکھائی دے رہا ہے اور اس ضمن میں بہت زیادہ مراعات بھی دی جارہی ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا کہ KESC کے علاوہ واپڈا کے دیگرپاورکمپنیوں سے خریدی گئی بجلی کی ادائیگی کے سلسلے میں شدید مشکلات پیداہوں گی۔ رینٹل پاور اور تھرمل پاورکی پیداواری صلاحیت کے معاملے میں جس طرح معاملے کو آگے بڑھایا جارہا ہے اس نے ماہرین معیشت کو پریشان کرکے رکھ دیاہے۔ رینٹل پاور پراجیکٹس کے بارے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ یہ پاورپراجیکٹس صرف اورصرف بجلی کی کمی جلد از جلد ختم کرنے کی ایک کوشش ہے اور صرف عوام کی خاطر جنگی بنیادوں پرمکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہمارے خیال میں جب عوام کو بجلی کے نئے بل پاور کمپنیوں کی طرف سے موصول ہوں گے تو بہت سوں کو شدید دھچکا لگنے کااندیشہ ہے۔
بات بہت دور نکل گئی لیکن اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔
تازہ ترین