• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کسی معاشرہ میں وسائل کی تقسیم منصفانہ کی بجائے بے رحمانہ، سفاکانہ اوردرندگانہ ہوجاتی ہے، مراعات یافتہ طبقات کی اندھا دھند لوٹ مار عروج پر پہنچ جاتی ہے، بھوک اور بدہضمی کے درمیان سرے محل اور پانامائوں کی خلیج ناقابل یقین اور ناقابل عبور ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کے مراعات یافتہ طبقے عوام کے خلاف گینگ اپ اور متحد ہوجاتے ہیں تو زندگی پر غیریقینی پن کے گھنے اور منحوس بادل چھا جاتے ہیں۔غیریقینی پن کی کوکھ سے آپا دھاپی، نفسانفسی، بے شرمی، بے حیائی، خوشامد، چاپلوسی، قصیدہ گوئی، رشتوں کی بے حرمتی و بربادی، افسردگی، مایوسی، ہیراپھیری، دھوکہ، فریب، نااہلی، تشدد، جارحیت، بے راہرو مذہبیت، نمود ونمائش و اسراف، رشوت ستانی، دروغ گوئی، حق پوشی، ضمیر فروشی، بے انصافی، نامرادی، بہانہ سازی، تکبر، غرور، کام چوری، حرام خوری، گندگی، غلاظت، کمینہ پن، بدکرداری جیسی بلائیں جنم لے کر آپس میں بیاہی جاتی ہیں اور جی بھر کے انڈوں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ہمدردی، صلہ ٔ رحمی، عدل، انصاف، راست گوئی، میانہ روی، سادگی، میرٹ وغیرہ مو ت کےگھاٹ اتر جاتے ہیں اور جیسے مرتے ہوئے آدمی کے لئے متاع حیات بچانےکے لئے حرام بھی حلال قرار پاتا ہے..... حرام ’’آرڈر آف دی ڈے‘‘ ہو جاتا ہے۔ حرام و حلال، نیک و بد، خوبصورتی بدصورتی، دیانت بددیانتی، اچھائی برائی، منفی مثبت وغیرہ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ سروائیول کے لئے ایک دوسرے کو روند کر گزر جانا چاہتے ہیں جیسے پرسکون ہجوم میں بم پھٹ جائے تو ڈسپلن اور مروت کی موت ہو جاتی ہےاورجان بچانے کے لئے ایک دوسرے کی گردنوں کو گزرگاہیں بنالیتے ہیں لوگ، لوگوں کو ایسی ہی صورتحال سے دوچار کردیا گیا ہے ورنہ چند عشرے پہلے تک کا پاکستان ایسا ہرگز نہ تھا۔بچپن لڑکپن میں مباحثوں کے دوران ساحر لدھیانوی کا یہ چالو قسم کا شعر بہت مقبول تھا۔اِس طرف بھی آدمی ہے، اُس طرف بھی آدمیاِس کے جوتوں پر چمک ہے، اُس کے چہرے پر نہیںیا یہ ڈرامائی سا شعر......مِلیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیںکہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیںتب ایسا نہیں تھا..... آج اس سے کہیں بدتر ہے اور وجہ اس کی یہ کہ کوئی حساب لگا کر دیکھ لے کہ ایک طرف پینے کا صاف پانی میسر نہیں، دوسری طرف ایک سال میں اربوں روپے سے بھی زیادہ رقم حکمران برادران کی ذاتی تشہیر پر غارت کردی جاتی ہے۔ بھاری اکثریت یوتھ کی اور یوتھ ساری بے کاری بیروزگاری کا شکاراور اپنوں کو مختلف ا سکیموں کی آڑ میں رشوتیں دینے کی مکروہ رسم؎عام ہے یہ اک وبا، جاں لیوا بیماری میں ہوںاوپریشن سے نکالو، رحم بیکاری میں ہوںتو جان لو کہ آج نہیں تو کل یا پرسوں یہاں کھنڈے چھروں سے ’’سیزیرین‘‘ ہوگا۔ ’’اوپریشن سے نکالو رحم بیکاری میں ہوں‘‘ کا صرف یہی جوا ب ہے۔یہ زبانیں اور دولتیاں خوب چلا رہےہیں لیکن جینوئن تجزیئے سے تہی دامن کہ صرف اپنے ورکرز کو نوازنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ نفرت میں مزیداضافہ ہوگا۔ انہیں علم ہونا چاہئے کہ انہیں ’’ایکروس دی بورڈ‘‘ سب کے لئے کچھ کرنا ہوگا جو وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر ناممکن ہے۔ تمہاری میٹروز، موٹرویز، اورنج ٹرینیں خود تمہارے لئے سراب سے زیادہ کچھ نہیں اور تم ان کھلونوں کو سیاسی آب ِ حیات سمجھ رہے ہو؟ تمہیں تو آج تک یہی سمجھ نہ آئی کہ عمران خان کی فلاپ تحریک انصاف ’’گاڈزیلا‘‘ بن کر تمہارے اعصاب پر کیسے چھا گئی؟تم اس کا کریڈٹ شجاع پاشا نامی ریٹائرڈ جرنیل کو دے کر دراصل خود اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہے۔ وہ بیچارہ اس جوگا ہوتا تو تحریک انصاف سے آدھی کوئی اپنی پارٹی بنا لیتالیکن یہاں تو اسلم بیگ عرف تمغہ ٔ جمہوریت فارغ ہو گیا۔ نہ ایوب خان کی مسلم لیگ رہی نہ پرویز مشرف کی تو تحریک انصاف کی اٹھان اور پھر چٹان بن جانے کے پیچھے تمہاری اپنی ناکردگی ہے، اپنی نالائی اور ناقص ترجیحات ہیں۔اب بھی اسی بھول میں رہے تو سوائے دھول کے تمہاری سیاسی قسمت میں کچھ نہیں اور یہ جو برساتی مینڈک، چُوری خور مجنوں، سورج مکھی کے پھول، موسمی پرندے، پیدائشی ٹرن کوٹس کاحصار ہے ناں..... ریت کی دیوار سے بھی کمزور ہے۔تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کاپڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں جائےسوائےچند خونی رشتوں اور گنتی کے چند باآبرو لوگوں کےیہ تو وہ سائے بھی نہیں جو ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ قدرت تو نظام سقے پر بھی مہربان ہو جائے تو چمڑے کے ’’سکے‘‘ چلا دیتا ہے۔ انہیں قدرت نے بڑے انعام دیئے لیکن جان نہ پائے کہ ہر انعام دراصل ایک امتحان ہوتا ہے اور امتحان بھی ایسا جو ’’پرچیوں‘‘ کےزور پر پاس نہیں کیاجاسکتا کہ قدرت کے امتحانی مراکز میں کسی بھی دونمبری کی قطعاً کوئی گنجائش نہیںاور آزمائش عوام کی بھی لاجواب ہے کہ جسے تیسری بار منتخب کیا وہ ’’پرچیاں‘‘ دیکھے بغیر پرچہ دینے سے ہی قاصر ہے۔آغازکی غلطیاں شاید قابل معافی ہوں کہ پشتینی سیاستدانو ںکا جن جپھا توڑنے کے لئے کچھ مجبوریاں ہوں گی لیکن بعد میں تو سنبھل جاتے کہ بل گیٹس کےآملیٹ میں بھی زردی سونے کی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے انڈے کی سفیدی چاندی یا پلاٹینم کی ہوتی ہے اور اس کاسٹیک بھی زیادہ سے زیادہ شارک مچھلی، مگرمچھ یا رینڈیئر کے گوشت کا ہوتا ہوگا جس کا تصور کرتے ہی مجھے تو ابکائی آنے لگتی ہے تو پھر مسئلہ کیا تھا.....جو تھا سو تھا لیکن اب کیاہے؟عالیشان انداز میں عوام سے کہو..... ’’ہم بدنیت نہیں تھے، بدنظمی سرزد ہوگئی، ہم مینجمنٹ میں مار کھا گئے اور اپنے ناکردہ گناہوں کا بھی اقرار کرتے ہیں‘‘شاید ’’سانپ‘‘مرجائے اور ’’لاٹھی‘‘ بھی بچ جائے لیکن نہیں کیونکہ سہولت کار مفادات و مراعات کے اسیر ہوتےہیں اور جینوئین مشوروں سے گریز اور پرہیز کو ترجیح دیتے ہیں۔

 

.

تازہ ترین