رچرڈ ہالبروک نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی ذمہ داریوں میں مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دینا شامل نہیں یہ مسئلہ دونوں ممالک کو آپس کے ذریعے حل کرنا ہوگا، مسٹر ہالبروک بلاشبہ صدر اوبامہ کی طرف سے افغانستان اور پاکستان کیلئے خصوصی ایلچی مقرر ہیں لہٰذا مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دینے سے انکار کررہے ہیں تو بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن خطہ میں امن کیلئے مسٹر ہالبروک کی بھاگ دوڑ اور امریکہ کے بلند بانگ دعوؤں کو سامنے رکھا جائے تو مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے محض کابل اور اسلام آباد سے امن کی فاختہ اڑانا کوئی مناسب اور دانشمندانہ فیصلہ نظر نہیں آتا بلکہ اس طرح کے کردار سے امریکہ کی اس نیت اور ارادوں کی نفی ہوتی ہے کہ جو وہ خطہ کے استحکام اور امن کیلئے وقتاً فوقتاً ظاہر کرتا رہتا ہے۔گزشتہ 6 ماہ میں مسٹرہالبروک نے اسلام آباد کے5 دورے کیئے، ایک فعال سفیر کی موجودگی میں ہالبروک کے دوروں کا تسلسل اور تواتر نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے، آخر وہ کونسی ایسی ہنگامی صورتحال ہے کہ جس کی وجہ سے ہر ایک ڈیڑھ ماہ بعد بوڑھے ہالبروک کو اسلام آباد کا طویل سفر کرنا پڑتا ہے…؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان اور پاکستان کیلئے صدر اوبامہ کا یہ خصوصی ایلچی افغانستان میں اتحادی افواج کی ممکنہ اور یقینی شکست کی سزا پاکستان کو دینے کیلئے کوئی ایسی منصوبہ بندی کررہا ہے کہ جس کی مانیٹرنگ کیلئے انہیں بار بار پاکستان آنا پڑتا ہے؟
اسلام آباد میں امریکہ کے سفارتخانے میں توسیع جسے بعض حلقے امریکہ کی فوجی چھاؤنی قرار دے رہے ہیں آخر اس کے لئے زمین ہموار کرنے اور زمین خریدنے کیلئے یقیناً مسٹر ہالبروک کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں پاکستان مقتدر شخصیات سے کئی مرتبہ ملنا پڑتا ہوگا، سو لگتا ہے کہ وہ اس کام میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں مسٹر ہالبروک کے ارادوں سے پاکستان تشدد خانہ جنگی اور آپریشنز کے حوالے سے بھی معاملہ جوں کا توں ہے جو یقیناً مسٹر ہالبروک کی سفارتکاری کی مہارت اور مداخلت کا نتیجہ ہے یہاں تک کہ بلوچستان میں آپریشن مزید تیز کرانے کیلئے بھی مسٹر ہالبروک کے ڈپلومیٹک بیانات سامنے آچکے ہیں” بلوچستان میں آپریشن کا فیصلہ حکومت پاکستان کو کرنا ہے“ مطلب یہ کہ حکومت پاکستان کو اب لازماً کرنا ہے۔
مسٹرہالبروک جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے ہیں تو جنرل کیانی، وزیراعظم گیلانی اور صدر زرداری سے ملاقات ضرور کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ رائے ونڈ بھی جاتے ہیں جہاں میاں نواز شرف کو ہر بار امریکہ کی جانب سے یہ تسلی دی جاتی ہے کہ امریکہ انہیں بھولا نہیں وہ اپنی باری کا انتظار کریں لہٰذا اس حوالے سے بھی مسٹر ہالبروک کو یہ کامیابی نصیب ہورہی ہے کہ اپوزیشن کے شیر نے عوام کو بھیڑیوں کے سامنے اکیلا چھوڑ کر خود پنجرے(محلات) میں سستانے پر اکتفا کرلیا ہے، اس مرتبہ تو مسٹر ہالبروک نے اسلام آباد اور لاہور سے آگے نکل کر کراچی کا بھی سفر کیا اور کراچی میں اپنی مصروفیات میں کچھ اس طرح کا تاثر دیا کہ اہل کراچی بھی اب بے غم ہوجائیں افغانستان، سوات اور وزیرستان کا تجربہ رکھنے والا اب اہل کراچی کو بھی کوئی نہ کوئی خوشخبری سنائے گا کیونکہ کراچی کے اندھیروں سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے تھا اب تک وہ کئی نہ اٹھاسکا، کراچی قائد کا شہر ضرور رہے مگر کون سے قائد کا اس کے لئے مسٹر ہالبروک نے حالیہ دورہ کراچی کے دوران کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی ضرور کی ہوگی۔ پاکستان کے اندر مسٹر ہالبروک جو کھیل کھیل رہے ہیں اس کے لئے انہیں بہت جلدی ہے کیونکہ ان کے بوڑھے اور ناتواں کندھے پاکستان کا بوجھ زیادہ عرصے تک اٹھانے سے قاصر ہیں ویسے چشمے کے پیچھے چھپی ان کی آنکھیں بھی وہ منظر دیکھنا چاہتی ہیں جو انہیں کبھی نظر نہیں آئے گا، انشااللہ۔افغانستان امریکہ کا مسئلہ ہے اور کشمیر پاکستان کا مسئلہ، مسٹر ہالبروک کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دینا ان کی ذمہ داری نہیں یہ مسئلہ ان دونوں ملکوں (بھارت اور پاکستان) کو خود ہی حل کرنا چاہئے… بہت اچھی بات ہے مگر اس اچھی بات کے ساتھ ایک دوسری اچھی بات بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ افغانستان امریکہ کا مسئلہ ہے اسے امریکہ اور افغانستان دونوں مل کر حل کریں، پاکستان اس میں کوئی مدد نہیں کرسکتا تو جناب ہالبروک کا جواب کیا ہوگا…؟ اگر افغانستان میں مبینہ طور پر موجود کسی دہشت گرد سے امریکہ کو کوئی خطرہ ہے تو وہ اس خطرے سے خود نمٹے جیسا کہ ہم(پاکستان) اور کشمیری عوام 62 برس سے بھارت کی جارحیت اور دہشت گردی سے نمٹتے آرہے ہیں…؟ اگر مسٹر ہالبروک افغانستان اور پاکستان کیلئے ایلچی نہیں تو برائے مہربانی وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ جب وہ اسلام آباد دورے پر آتے ہیں تو واپسی پر اکثر نیودہلی کی یاترا کن مقاصد کیلئے کرتے ہیں، کیا مسٹر ہالبروک اس بات سے انکار کریں گے کہ اس خصوصی ایلچی کا بھارت کے حوالے سے بھی ایک خاموش کردار ہے، کابل اور اسلام آباد میں ہونے والی گفتگو سے بھارتی قیادت کو آگاہ رکھنا کیا مسٹر ہالبروک کی لازمی ذمہ داری میں شامل نہیں…؟ ہم جانتے ہیں کہ مسٹر ہالبروک مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی مدد نہیں دے سکتے اور وہ تمام بیانات یقین دہانیاں جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں جو سابق صدر بش، کونڈالیزا رائس، ہلیری کلنٹن اور صدر اوبامہ پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کرتے رہے ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خود امریکہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے، امریکہ افغانستان میں مسلمانوں کا جو قتل عام کررہا ہے یہی کام بھارتی فوج کشمیر میں کررہی ہے مزید براں اسرائیل جو بھارت کے بعد امریکہ کا دوسرا بغل بچہ ہے وہ بھی ارض فلسطین پر یہی کچھ کررہا ہے، فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان میں تباہی و بربادی امریکی ایجنڈے کا حصّہ ہے، صدر بش کے بعد صدر اوبامہ کی صدارت میں بھارت کے سول جوہری معاہدے کے اہداف میں مزید اضافے اور بڑے پیمانے پر بھارت کو اسلحہ کی ترسیل سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو وادی کے عوام کی مرضی اور خواہش کے مطابق حل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ اسے بھارت کی مرضی کے مطابق جوں کا توں رکھنا ہے یعنی پاکستان کی شہہ رگ پر بدستور بھارت کے ترشول کی نوک موجود رہے گی، بھارت کی معاشی و اقتصادی ترقی سمیت فوجی طاقت میں اضافے کیلئے امریکہ جو اقدامات اٹھا رہا ہے اس کے پس پردہ عزائم یقیناً پاکستان پر ایک بڑے حملے کی سازش ہے، اکھنڈ بھارت کا خواب جسے گاندھی جی کے قاتل نتھورام نے1948ء میں دیکھا تھا وہ خواب اب نیودہلی کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ واہٹ ہاؤس کے مکین بھی دیکھنے لگے ہیں۔گوکہ پاکستان کے حکمران ضرور امریکہ کے دھوکے اور ہالبروک کے فریب کا شکار ہیں تاہم پاکستان کے عوام اپنے ملک کی حفاظت کیلئے چوکس اور کشمیر کی آزادی کیلئے یکسو ہیں۔بھارت اور امریکہ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود افغانستان اور کشمیر میں ناکام رہیں گے یہی حشر اسرائیل کا بھی ہوگا، دنیا کا کوئی مظلوم ایسا نہیں کہ جس کا ظالم قبر سے باہر رہ گیا ہو۔