لاہور(صابر شاہ) یہ چیز انتہائی دلچسپ اور حیران کن ہے کہ ایک وقت میں سابق پاکستانی وزیراعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ آف شور کمپنی بنانے والے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بے باکی سے اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بطور گواہ پیش ہوئے جو حکمران شریف خاندان کی پاناما میں شیل کمپنیوں اور موجودہ وزیراعظم یا ان کے خاندان کی طرف سے غیر قانونی طور پر سرمائے کے ممکنہ بہائو میں ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہی ہے جسے عرف عام میں منی لانڈرنگ کہاجاتا ہے۔اصل میں بین الاقوامی قانونی فرم موزیک فونسیکا کے ریکارڈ کے جائزے کے دوران ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو، رحمان ملک اور حسن علی جعفری نے برٹش ورجینیا جزائر میں ایسی ہی کمپنی بنائی مگر اس سے تعلق کی سیاسی حساسیت کے باعث بدنام پاناما فرم سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا اور کہا کہ ’’فرم کے شراکت داروں نے مسز بھٹو کو شراکت دار کے طور پر قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ 5اپریل 2016ء کو پاناما سکینڈل سامنے آنے سے محض دوروز بعد موقر بھارتی اخبار’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے بتایا’’سابق پاکستانی وزیراعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو، ان کے معتمد خاص عبدالرحمان ملک اور بھتیجے حسن علی جعفری بھٹو نے 2001ء میں برٹش ورجن جزائر میں پیٹرو لائن انٹرنیشنل کے نام سے ایک کمپنی قائم کی بعد میں ان تینوں پر اقوام متحدہ کےتیل برائے خوراک پروگرام کے تحت اسی پیٹرولائن ایف زیڈ سی کے نام سے عراقی حکومت کو رشوت دے کر ٹھیکے لینے کا الزام لگا، یہ کمپنی 2000ء میں شارجہ میں قائم کی گئی تھی۔ معروف بھارتی میڈیا ہائوس نے مزید لکھا’’ یو ایس فیڈرل ریزروز کے سابق سربراہ پال واکر کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے سراغ لگایا کہ پیٹرولائن ایف زیڈ سی نے 2005ء میں صدام حسین کی حکومت کو ساڑھے11سے ساڑھے 14کرور امریکی ڈالر کے ٹھیکے لینے کے لئے 20لاکھ ڈالر کمیشن دیا۔ 2006ء میں پاکستانی کے قومی احتساب بیورو نے دعویٰ کیا کہ پیٹرولائن ایف زیڈ سی بے نظیر بھٹو،رحمان ملک اور علی جعفری کی ملکیت تھی،بے نظیر بھٹو اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ مزید لکھتا ہے کہ’’اقوام متحدہ کا تیل برائے خوراک سکینڈل سامنے آنے کے فوراً بعد ایک منحرف کو قتل کر دیا گیا جبکہ 2007ء کے انتخابات کی مہم جاری تھی۔ ان کے معتمد خاص ملک اب سینیٹر اور پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سینئر رکن ہیں ،قبل ازیں وہ وفاقی تحقیقاتی ادارے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر اور اندرون و بیرون ملک بے نظیر کی خدمت کرتے رہے۔ لندن کی لاء فرم رچرڈ رونی اور ایم ایف بی وائی ای کمپنی کی طرف سے مشترکہ طور پر چلائی جانے والی برٹش ورجن آئی لینڈ میں پیٹرو لائن انٹرنیشنل کا 7ستمبر 2001ء کوایک معیاری شیلف کمپنی کے طور پر سرمایہ 50ہزار ڈالر (ایک ڈالر فی شیئر) تھا۔ 28ستمبر 2001ء تک بے نظیر بھٹو، ملک اور جعفری کے نام بطور ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈرز سامنے نہیں آئے جب ایم ایف لندن نے ایم ایف بی وی آئی کو بے نظیر بھٹو کو ایک لاکھ 70ہزار حصص (خبر میں انہیں 17000لکھا گیا ہے،شاید غلطی سے)اور عبدالرحمان فیروز ملک اور سید حسن علی جعفری کو مساوی ایک لاکھ 65ہزایر حصص دینے کا کہا۔ واقعاتی طور پر بھٹو ، ملک اور جعفری کے درمیان 33,34اور 33فیصد حصص کی تقسیم ہو بہو ویسی ہی ہے جیسی مبینہ طور پر پیٹرولائن ایف زیڈ سی میں تھی۔انڈین ایکسپریس کے پاکستان میں رحمان ملک سے ان کے نمبر پر رابطے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہیں تھے جبکہ حسن بھٹو بھی ردعمل کے لئے نہ مل سکے۔ واضح رہے کہ 18مئی 2010ء کو اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے رحمان ملک کو غیر حاضری میں دی گئی 3سال قید کی سزا معاف کی جو انہیں جنوری 2004ء میں ایک انسداد بدعنوانی عدالت نے سنائی تھی، زرداری نے رحمان ملک کی ممکنہ گرفتاری روکنے کے لئے ان پر رحم کیا اور اپنی حکومت کو تازہ تنازع میں گھرنے سے بچا لیا۔ رحمان ملک نے سزا کے وقت بیرون ملک سے فیصلے کے خلاف اپیل کی مگر لاہور کی ایک عدالت نے ان کی درخواست مسترد اور ضمانت منسوخ کر دی۔صدر نے فوری مداخلت کی اورگھنٹوں میں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے رحمان ملک کو ممکنہ گرفتاری سے بچا لیا۔ صدر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صدر نے رحمان ملک کو معافی دینے کے لئے ’’صوابدیدی اختیارات‘‘ استعمال کئے۔ جلد بازی میں کئے گئے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بابر نے کہا کہ معافی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 45کے تحت دی گئی جنہوں نے اس واقعے سے صرف ایک ماہ پہلے ہی زرداری سے یہ اختیارات حاصل کئے تھے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا ’’رحمان ملک کو ان کی ملک سے غیر موجودگی کے دوران سیاسی و جوہات کے باعث انتقام کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔